ایاز امیر
ایک ضمانت نہیں کئی ہوں تو بات بنے۔ عمر کا کافی عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس دنیا سے رخصت ہونے کا جی نہیں کرتا۔ عمرِ خضر کی ضمانت نہ بھی ہو کہیں سے کچھ یقین تو آئے کہ اتنے سال اور جئیں گے۔ ویسے بھی عمر بیکار کی گزری ہے‘ راہ پر آنے کے لیے ایک اور عمر تو درکار ہو گی۔ وہی بات کہ آ ہی جاتا وہ راہ پر غالب؍ کوئی دن اور بھی جیے ہوتے۔ لیکن کہاں تمام شاعروں کا امام اور کہاں ہم۔ غالب میں یہی بات تو ہے کہ بات بات پر اس کا سہارا لینا اچھا لگتا ہے۔
صحت میں کچھ ایسی ترمیم ہو کہ کچھ عمر مل بھی جائے تو سہاروں سے چلنے والی عمر نہ ہو۔ آنکھ میں دم رہے اور ہاتھ میں جنبش بھی ہو اور مینا و ساغر کے مناظر کم نہ پڑیں۔ یعنی دھکے کھانے والی عمر نہ ہو‘ بڑھاپا تو آئے گا بے شک آئے لیکن بہرحال کچھ مستی تو رہے۔ تاحیات کا لفظ دل کو بہت اچھا لگتا ہے۔ صحتِ کاملہ ہو اور تاحیات ہو‘ یعنی آخری دم تک۔ اس کی ضمانت کون دے گا یا کون دے سکتا ہے؟ یہی تو بات ہے جس کی ہمیں ضمانت چاہیے۔
دن اور شب گزارنے کے لیے عام سی محفل نہ ہو بلکہ درویشوں کی محفل چاہیے۔ لیکن ایسے ہوں جن کی آنکھ میں چمک یا یوں کہیے تھوڑی سی شرارت باقی ہو۔ مرزا تو میسر ہوں گے نہیں وہ تو کہیں اوپر محفل جما رہے ہوں گے اور کتنے خوش نصیب وہ جو وہاں موجود ہوں گے۔ بیکار کی زندگی کا یوں اندازہ لگائیے کہ اب تک معلوم نہ تھا کہ ”چراغِ دیر‘‘ کیا چیز ہے اور مرزا نوشہ نے یہ فارسی میں مثنوی کب اور کیسے لکھی۔ یہ تو سوامی اُما دی اَک کے لیکچر سے پتا چلا کہ مرزا دِلی سے کلکتہ جا رہے تھے اور راستے میں بنارس میں بیمار پڑ گئے۔ تندرست ہوئے تو کچھ دن وہیں رہنے کا ارادہ کیا۔ بنارس کی گلیوں میں پھرے‘ وہاں کے مندروں میں گئے‘ وہاں کے باغات دیکھے تو اتنے مانوس ہوئے کہ وہیں فارسی میں یہ مثنوی لکھ ڈالی جو بنارس کی تعریف میں لکھی گئی۔ غالب یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ قیامت کی تمام نشانیاں موجود ہیں لیکن اگر قیامت نہیں آ رہی تو اُس کی ایک وجہ بنارس کا ہونا ہے۔ جوکہ زمین اور آسمان کے بیچ میں کہیں موجود ہے۔ غور کیجئے کہ بنارس ہندوؤں کا بڑا مذہبی شہر ہے اور غالب ایک مسلمان اُس کی تعریف میں یہ کہہ رہے ہیں۔ کچھ اور معلوم کرنے کیلئے کچھ مزید پڑھا تو یہ تبصرہ کسی کا سامنے آیا کہ ”چراغ دیر‘‘ ہندوستان کی تاریخ میں سب سے عمدہ سیکولر بھجن ہے۔ ہم پتا نہیں کون سی تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں اور اس عمر میں آکر اور وہ بھی انٹرنیٹ کے بے پناہ ذخیرے کی بدولت غالب سے کچھ آشنائی حاصل کررہے ہیں۔
اٹھہتر سال اس ملک کو بنے ہوگئے اور اس عرصے میں ہم اپنا کوئی ڈھنگ کا نصاب نہ بنا سکے۔ انگریزی تعلیم ضرور ہونی چاہیے‘ ہم انگریزی سکولوں میں ہی پڑھے‘ لیکن کچھ اپنی تہذیب اپنے ماضی کا بھی تو پتا ہو۔ ایک اور بات سوامی جی سے سنی کہ ہندوستان کی تمام بھاشائیں ادھر اُدھر کی ہیں‘ ہندوستان کی اگر کوئی اپنی زبان ہے تووہ اُردو ہے۔ یعنی ہندوستان میں جو زبانوں کی آمیزش ہوئی اُس سے اُردو بھاشا پیدا ہوئی۔ اب یہ وہاں کا ایک سوامی کہہ رہا ہے‘ یہاں پر تو میں نے یہ کہتے کسی کو نہیں سنا۔ شاید ہماری آگاہی کم ہو لیکن یہ بھی ہے کہ ان موضوعات پر یہاں اتنی گفتگو نہیں ہوتی۔ ہماری ترمیمات ختم ہوں تو ان موضوعات پر کچھ بات ہو۔ یہ بھی میں کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس طرح سے سوامی جی غالب پر بات کرتے ہیں ایسا کسی اور کو نہیں سنا۔ اور صرف غالب پر نہیں بلکہ میر اور اقبال پر بھی۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ تمام اردو اور سنسکرت شاعری اُنہیں ازبر ہے۔ زندگی گزاری ہو تو ایسی راہوں پر گزاری ہو۔ علم کی کھوج میں دن گزرے ہوں کیا چاشنی ایسے میں پیدا ہو۔ اسی لیے بیکار کا لفظ کہا‘ کچھ دن گزریں فلاں جستجو میں اور پھر دھیان کہیں اور بکھر جائے۔بکھرے دھیان سے گیان حاصل نہیں ہوتا۔ اپنے فن پر جو قادر ہو اور پھر اُس بنا پر بولنے لگے اور شیریں زباں بھی ہو تو انسان سن کر محو حیرت ہو جاتا ہے۔ لیکن کہاں سے ضمانت ملے کہ اپنے کلام پر ہم ایسے قادر ہوجائیں۔
وہ ہندوستانی تہذیب جس کی عکاسی مغل در بار کرتا تھا اور جہاں اردو بولی جاتی تھی وہ1857ء کے واقعات کی نذر ہوگئی۔ بادشاہت تو برائے نام رہ گئی تھی لیکن اُس زوال میں بھی مغل بادشاہ کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا‘ہندومسلم تفرقے سے بلاامتیاز۔ 1857ء کے واقعات سے مغلوں کا دِلی بربادہو گیا۔ انگریزوں نے وسیع پیمانے پر لوگوں کو‘ خاص طور پر مسلمانوں کو بندوق اور توپ کا نشانہ بنایا۔ تہذیب کا آمیزش لٹ کر رہ گیا اور آپس کا تفرقہ بڑھتا گیا۔ ادب میں اگر اُس تہذیب کی کوئی معراج ہے تو وہ غالب کی شاعری ہے۔ بہرحال ہم جیسے اس موضوع پر کچھ اور کہیں تو مناسب نہیں ہو گا کیونکہ اس موضوع پر جتنا علم ہونا چاہیے ہم حاصل نہ کرسکے۔ رونا یہ بھی ہے کہ اس موضوع کو زیادہ جاننے کی کوشش بھی نہ کرسکے۔ سینئر کیمبرج کا 1965ء میں امتحان دیاتو ہمارا مضمون لوئر اردو تھا۔ یعنی انگریزوں کا کمال دیکھئے کہ لوئر انگریزی تو کبھی مضمون نہ رہا لیکن اُردو کو لوئر اور اعلیٰ میں تقسیم کر دیا۔ ہم لوئر اُردو والے‘ ہم نے غالب یا اقبال کیا پڑھنا تھا۔ پھر اپنے ملک کا یہ مسئلہ بھی ہے کہ صحیح معنو ں میں اُردو کی یہاں کوئی وقعت نہیں۔ زبانِ اقتدار اور زبانِ طاقت انگریزی ہے۔ صحیح بولنا نہ بھی آئے‘ تلفظ اتنے اعلیٰ معیا رکا نہ ہو‘ لیکن بولنا انگریزی میں ہی ہے چاہے انگریزی کا قتلِ عام ہو جائے۔
بات انگریزی یا اُردو کی نہیں‘ جو کچھ یہاں پڑھایا جاتا ہے اُس سے ہم ایک نیم خواندہ قوم بن گئے ہیں۔ اس نیم خواندگی کی وجہ سے جو ایک شعور ہونا چاہیے وہ اگر شروع کے سالوں میں تھا بھی تو وقت گزرنے کے ساتھ مدہم پڑ گیاہے۔ اورحالت اب یہ ہے کہ قوم کے ساتھ جو کچھ بھی ہو بغیر چون و چرا کے سہہ لیا جاتا ہے۔ جیسے گدھے پر جتنا بوجھ بھی لادا جائے اُس نے کیا کہنا ہے۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ ہماری حالت ایسی ہی ہو گئی ہے۔ کتنا عرصہ سمجھتے رہے کہ حالات بہتر ہوں گے۔ جو کچھ ہو رہا ہے ہماری تقدیر نہیں۔ لیکن عمر کے اس حصے میں یہ راز افشا ہوا کہ نہیں یہی ہماری تقدیر ہے‘ جو کچھ ہوتا رہا ہے ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ وزن اٹھانے والا جانور احتجاج نہیں کرتا۔ احتجاج تو دور کی بات ہے اب تو لوگوں نے بولنا چھوڑ دیا ہے یہی سمجھ کر کہ بولیں بھی تو اُس سے ہوگا کیا۔ مایوسی کی کیفیت قوم پر طاری ہو چکی ہے اور ایسے الفاظ کہ جھپٹنا‘ پلٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ عجیب لگتے ہیں۔
پھر ہم جو کرتے ہیں ٹھیک ہی کرتے ہیں۔ اس موسم میں کچھ دھوپ سینک لی‘ تھوڑی سی چہل قدمی کرلی‘ جدائی اور بیوفائی کے گزرے دنوں کے گانے سن لیے اور شاموں کے سایوں کو دیکھ کر دل بہلا لیا۔ غالب کا ہندوستان لٹ گیا اور اُس بربادی میں وہ لافانی شاعری لکھی گئی۔ بربادی یہاں بھی لیکن نہ کوئی شاعری نہ موسیقی۔ کارواں کا حال کیا اور میرِ کارواں بھی کیسے۔
Load/Hide Comments

