اداریہ
رازق بگٹی بلوچستان کی سیاست کا ایک ایسا نام ہیں جس نے نہ صرف طلبہ سیاست سے لے کر قومی سیاست تک اپنا سفر جاری رکھا ان کی زندگی کا سفر نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے خطے کی سیاست کے لیے عہد ساز ثابت ہوا۔
رازق بگٹی کی سیاسی زندگی کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) سے ہوا، جہاں انہوں نے نہ صرف چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے بلکہ بلوچ نوجوانوں کی رہنمائی کرتے ہوئے ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ انہوں نے آل پاکستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل کے طور پر ملک بھر کے طلبہ کی نمائندگی کی اور طلبہ مسائل کے حل کے لیے قابل ذکر کام کیا۔
بی ایس او کے عروج کے دور میں کہور خان بلوچ، حبیب جالب بلوچ، رستم بلوچ، ڈاکٹر فیض شاہ ہاشمی۔ ڈاکٹر مراد مری۔ پیر محمد بلوچ، ڈاکٹر سلیم کرد اور ہزاروں سیاسی ورکروں اور رہنماء اس کے ساتھ کام کرتے رہے۔ اس دور میں انہیں “انقلاب کے تین نشان” میں سے ایک سمجھا جاتا تھا، جو اس وقت کے طلبہ کے جذبات اور سیاسی مقاصد کی عکاسی کرتا تھا .
رازق بگٹی کا سیاسی فلسفہ عوامی خدمت، اقلیتی حقوق کے تحفظ اور وفاق میں بلوچستان کے حقوق کے لیے جدوجہد پر مبنی تھا۔ انہوں نے ہمیشہ جمہوری اقدار اور سیاسی رواداری کی پاسداری کی۔
27 جولائی 2007 کوئٹہ میں نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں اس کی شہادت ہوئی۔
رازق بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان کا سیاسی منظر نامہ بدستور پیچیدہ رہا ہے۔ان کی سیاسی زندگی اور شہادت بلوچستان کی پیچیدہ سیاست کی ایک عکاس ہے۔ ان کا سفر طلبہ سیاست سے لے کر اسکی شہادت تک جاری رہا ۔ آج بلوچستان کو درپیش چیلنجز -چاہے وہ نوجوانوں کے مسائل ہوں، ترقیاتی امور ہوں یا سیکورٹی کے معاملات – ان تاریخی سیاق و سبق سے الگ نہیں ہیں جس میں رازق بگٹی جیسی شخصیات نے اپنا کردار ادا کیا۔
ان کی زندگی کا یہ پیغام آج بھی بلوچستان کے عوام، نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے کہ جمہوری اقدار، سیاسی رواداری اور عوامی خدمت کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے صوبے کے مسائل کے حل کے لیے کام جاری رکھا جائے۔ یہی رازق بگٹی کی سیاسی میراث کو زندہ رکھنے کا بہترین طریقہ ہوگا۔

