اختر حسین کی 27ویں آئینی ترمیم کی شدید مذمت، عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار

کوئٹہ (رپورٹر) اختر حسین صدر عوامی ورکرز پارٹی ، سابقہ میمبر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان و سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کا خط (مراسلہ)
پاکستان بار کونسل،تمام صوبائی اور اسلام آباد بار کونسلز،پاکستان کی تمام بار ایسوسی ایشنز کے نام

میں، اختر حسین، سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، سابق رکن جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور صدر عوامی ورکرز پارٹی، 27ویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ یہ ترمیم نہ صرف عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرتی ہے بلکہ پاکستان کے آئین 1973 کی بنیادی ساخت پر بھی سنگین اثر ڈالتی ہے۔
ترمیم کے مقاصد اور ارادوں کو “بیانِ وجوہات و مقاصد” میں یوں بیان کیا گیا ہے:
(i) سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد
(ii) مسلح افواج کی انتظامی ساخت کو نئی شکل دینا
یہ دونوں وجوہات مضحکہ خیز ہیں، کیونکہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تمام عدالتوں میں اس وقت 2.26 ملین مقدمات زیرِ التوا ہیں، جن میں سے 82 فیصد مقدمات نچلی عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں، جبکہ محض 3 فیصد سپریم کورٹ میں۔ اس تمام صورتحال کے باوجود نچلی عدلیہ کی بہتری کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
جہاں تک فوج کے کمانڈ اسٹرکچر کا تعلق ہے، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے کا خاتمہ غیر ضروری تھا۔ یہ عہدہ تینوں افواج کے درمیان رابطے اور متفقه فیصلوں کے لیے ضروری تھا ، اس کے خاتمے سے تینوں افواج کے درمیان نفاق کے اندیشے ہیں ۔
مزید یہ کہ موجودہ ترمیم کے بعد پاکستان میں “سپریم کورٹ آف پاکستان” کا وجود اب باقی نہیں رہا بلکہ صرف “سپریم کورٹ” رہ گئی ہے، اور ترمیم کے مطابق فیڈرل آئینی Constitutional کورٹ کے فیصلے سپریم کورٹ پر لازم اور حتمی ہوں گے۔ مزید برآں، فیڈرل آئینی کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس اور پہلے بیچ کے ججوں کی تقرری صدرِ پاکستان وزیرِاعظم کی مشاورت سے کریں گے، نہ کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ذریعے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چیف جسٹس اور فیڈرل کونسٹیٹیوشنل کورٹ کے ججز کی تقرری موجودہ حکومتی اتحاد کی مرضی اور پسند پر ہوگی، اور وہ 68 سال کی عمر تک یعنی تقریباً 5/6 سال مزید عہدے پر رہ سکیں گے۔
دوسری بات یہ کہ 27ویں آئینی ترمیم نے چیف آف آرمی اسٹاف (فیلڈ مارشل) کو نہ صرف تینوں مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بنایا ہے بلکہ ملک کے سیاسی اور معاشی امور کا بھی سپریم سربراہ بنا دیا ہے۔ صدرِ مملکت، فیلڈ مارشل، ایئر مارشل اور نیول بیڑے کے ایڈمرل کو دی گئی یہ استثنیٰ اس بات کے مترادف ہے کہ انہیں ہر قسم کے اقدامات کرنے کا لائسنس دے دیا گیا ہے – حتیٰ کہ آئین کو معطل یا منسوخ کرنے، نئی اصطلاحات متعارف کرانے یا وفاق اور اس کے معاشی معاملات کے مستقبل سے کھیلنے تک کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ایسی استثنیٰ کسی بھی جمہوری نظام میں کہیں فراہم نہیں کی گئی۔
میں مزید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ موجودہ پارلیمنٹ یا حکمران سیاسی جماعتوں کا دھڑا عوام کے بنیادی حقوق, تعلیم، روزگار، صحت، رہائش وغیرہ کے حوالے سے کسی قسم کی پابندی یا سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ آج تک آرٹیکل 25-اے کے تحت حقِ تعلیم کے نفاذ کے لیے کوئی قانون سازی تک نہیں کی گئی۔ 5 سے 16 سال عمر کے 2 کروڑ 28 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے اختیارات کیا ہیں.
آرٹیکل 184(3)، سو موٹو اختیارات واپس لینا، عدلیہ کی آزادی پر ایک بڑا وار ہے جو معاشرے کے محروم طبقات کو سنگین طور پر متاثر کرتا ہے۔
مزید برآں، ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے سے متعلق آرٹیکل 200 میں ترمیم بھی بدنیتی پر مبنی اقدام ہیں۔ اس کا اصل مقصد اُن ججوں سے نجات حاصل کرنا ہے جو حکمران ٹولے یا اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات یا توقعات کے مطابق کام نہیں کرتے، اور اس ترمیم نے بھی عدلیہ کی آزادی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
میں تمام جمہوری سیاسی جماعتوں، مزدور تنظیموں، نوجوانوں اور پوری قانونی برادری سے اپیل کرتا ہوں کہ اس غیر جمہوری اور عوام دشمن ترمیم کے خلاف آواز بلند کریں اور اس کے خاتمے کا مطالبہ کریں۔

(اختر حسین)
سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
سابق رکن،
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان
تاریخ: 13 نومبر 2025

اپنا تبصرہ بھیجیں