جماعت اسلامی کا اجتماع عام۔۔۔۔۔نئے عزم،نئی سمت،نئے اجالے کا اعلان

اے آر طارق
مینار پاکستان کی فضاء ایک بار پھر ایک عظیم الشان تاریخی اجتماع جماعت اسلامی پاکستان کی تیاریوں سے گونج رہی ہے۔ اکیس، بائیس اور تئیس نومبر 2025 کے یہ تین دن محض ایک پروگرام نہیں بلکہ ایک ایسے کارواں کی کڑی ہیں جس نے اپنی ابتدا قیامِ پاکستان سے پہلے کی تحریکِ فکر سے کی تھی۔ جماعت اسلامی پاکستان کا یہ اجتماع عام ایک نئے عزم، ایک نئی سمت اور ایک نئے اُجالے کا اعلان ہے۔سلوگن”بدل دو نظام“ صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک اُمید ہے ایک تحریک ہے ایک دعویٰ ہے کہ اِس جمود زدہ، تھکی ہوئی، بوجھل فضاؤں میں نئی تازگی، نئی توانائی اور نئی صبح کی بشارت دی جا رہی ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں اندھیروں کے بیچ کھڑا مینارِ پاکستان روشنی کی علامت بن کر پوری قوم کو اپنے گرد سمیٹ رہا ہے۔یہ اجتماع اِس وطنِ عزیز کی تاریخ میں اُس وقت ہو رہا ہے جب مایوسی عام ہے ناانصافی گہری ہے امکانات کے دروازے بند ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور عوامی اعتماد کسی معجزے کا منتظر ہے۔ ایسے میں یہ اجتماع محض سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ اُمید کی کرن بن کر اُبھر رہا ہے۔ یہ ایک ایسا نقشہ پیش کرتا ہے جس میں مستقبل تابناک بھی ہے روشن بھی اور قابلِ حصول بھی۔ جماعت اسلامی کی قیادت گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کو ایک ایسے نظام کی دعوت دے رہی ہے جس میں انصاف محض کتابوں کی زینت نہ رہے، دولت کا بہاؤ چند ہاتھوں تک محدود نہ ہو، ریاست کمزوروں کی محافظ ہو اور قانون طاقتوروں کے قدموں کے نیچے کچلا نہ جائے۔یہ سفر اُس روز شروع نہیں ہوا جب مینارِ پاکستان کے سائے تلے ہزاروں لوگ جمع ہوئے بلکہ اِِس کی بنیاد اُس وقت رکھی گئی تھی جب بانیِ جماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے برصغیر میں اسلامی نظامِ زندگی کو علمی بنیادوں پر ازسرنو پیش کیا۔ اُن کی فکر انگیز تحریروں، ولولہ انگیز قیادت اور قرآن و سنت کے ساتھ گہری وابستگی نے محض ایک جماعت نہیں بلکہ مکمل فکری تحریک جنم دی۔ اِس تحریک نے عہد بہ عہد اپنی قیادت کے ہاتھ بدلتے مگر نظرئیے پر ثابت قدم رہتے ہوئے سفر جاری رکھا۔مولانا مودودیؒ کے بعد میاں طفیل محمد نے اپنے سوزِ دروں اور متانت سے جماعت کو تنظیمی قوت بخشی۔ اِن کے دور میں جماعت اسلامی نے اپنی فکری گہرائی کے ساتھ ساتھ انتظامی مضبوطی بھی پائی۔ پھر قاضی حسین احمد آئے جرأت و حوصلے کی علامت۔ اُن کی قیادت نے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونکی، عوامی مزاحمت اور عوامی سیاست کو نئی سمت عطا کی۔ سید منور حسن نے اپنی مدبرانہ سوچ اور فکری استقامت سے جماعت کے نظریاتی تسلسل کو مضبوط رکھا۔ پھر سراج الحق کا دور آیا جن میں درویشانہ صفات تھیں جنہوں نے سادگی، شفافیت اور عوامی خدمت کو سیاست کا اصل جوہر بنایااور آج جماعت اسلامی کی قیادت حافظ نعیم الرحمن کے ہاتھوں میں ہے۔ایک ایسی شخصیت جو شاہین صفت پرواز کا استعارہ بن چکی ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں مسائل پہاڑ اور اُمیدیں ریت کے ذروں کی طرح بکھری ہوئی تھیں وہاں اُن کی جدوجہد نے عوام میں اعتماد، شہری مفاداور انصاف کی نئی روایت قائم کی۔ اُن کی قیادت صرف تنظیمی صلاحیت کا مظہر نہیں بلکہ یہ اِس بات کا اعلان بھی ہے کہ جماعت اسلامی کی نئی نسل، نئے طرزِ سیاست، نئے جذبے اور نئے وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ اُن کا اٹھایا ہوا ہر قدم، اُٹھائی ہوئی ہر آواز اور کیا گیا ہر دعویٰ اِس بات کا غماز ہے کہ جماعت اسلامی آج بھی اپنے بنیادی مقصد سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹی یعنی پاکستان کو ایک منصفانہ، شفاف، اسلامی اور فلاحی ریاست بنانا۔اِس عظیم الشان اجتماع کے ناظم لیاقت بلوچ ہیں جوایک منجھے ہوئے، تجربہ کار، بردبار اور سیاسی حکمت و بصیرت رکھنے والی شخصیت ہیں۔ اِن کی تنظیمی مہارت اور سیاسی فہم نے نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ ملکی سیاست میں بھی ہمیشہ ایک مثبت تاثر چھوڑا ہے۔ آج جب مینار پاکستان کے تاریخی میدان میں ملک بھر سے قافلے پہنچیں گے۔جب نوجوانوں کا ولولہ، بزرگوں کی دعائیں، خواتین کی اُمیدیں اور بچوں کی مسکراتی نظریں ایک جگہ جمع ہوں گی تب یہ اجتماع اپنی وسعت اور رُوح کے ساتھ ایک ایسا منظر پیش کرے گا جو آنے والی نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔اِس اجتماع کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اِس میں عالم اسلام کے مختلف ممالک سے قائدین بھی شرکت کریں گے۔ یہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کا اجتماع ہو گا۔ اِس سے یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان محض جنوبی ایشیا کا ایک ملک نہیں بلکہ اُمتِ مسلمہ کی اُمیدوں کا محور بھی ہے۔ پاکستان کی سیاست، معاشرت، معیشت اور مستقبل صرف پاکستانیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ عالم اسلام کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے۔ اِس اجتماع میں شریک بین الاقوامی مہمان نہ صرف پاکستانیوں کے جذبات سے آشنا ہوں گے بلکہ وہ اِس حقیقت کا مشاہدہ بھی کریں گے کہ پاکستان کی رُوح آج بھی زندہ ہے، اِس کے لوگ آج بھی بیدار ہیں اور اِس ملک کے نوجوان آج بھی انقلابِ اسلامی کے خواب سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔یہ اجتماع ایک ایسا موقع ہے جہاں مایوسیوں کے بادل چھٹنے لگیں گے جہاں نااُمیدی کی راکھ میں سے اُمید کے چراغ جلیں گے اور جہاں یہ احساس دوبارہ زندہ ہو گا کہ قوم اگر چاہے تو اپنی تقدیر بدل سکتی ہے۔ آج پاکستان کا بحران معاشی بھی ہے اخلاقی بھی، سیاسی بھی اور معاشرتی بھی۔ مہنگائی نے عوام کے چولہے ٹھنڈے کر دئیے، بے روزگاری نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی آنکھوں میں آنسو بھر دئیے، کرپشن نے انصاف کے دروازے بند کر دئیے اور اقربا پروری نے اہل افراد کی راہیں مسدود کر دیں۔ ریاست کمزور شہریوں سے چشم پوشی کر رہی ہے اور طاقتور قانون کی گرفت سے ماورا نظر آتے ہیں۔ایسے میں جماعت اسلامی کا یہ نعرہ ”بدل دو نظام“ محض انتخابی دعویٰ نہیں بلکہ ایک فکری اعلان ہے کہ اب مزید مرہم پٹی کافی نہیں اب بنیادی سرجری کی ضرورت ہے۔ یہ وہ صدا ہے جو عوام کے دلوں میں پہلے سے موجود احساس کو زبان دے رہی ہے۔ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں لوگ انصاف چاہتے ہیں لوگ روشن مستقبل چاہتے ہیں۔ اِس اجتماع کا مقصد یہی ہے کہ اِن جذبوں کو منظم کیا جائے، اِن خوابوں کو سمت دی جائے، اِن خواہشوں کو ایک جامع سیاسی و سماجی پروگرام میں ڈھالا جائے۔مینارِ پاکستان کا یہ میدان 1940 میں ایک خواب کی دستاویز کا گواہ تھا، 2025 میں یہ دوسرے خواب کی تجدید کا مرکز بن رہا ہے۔ اُس وقت قوم نے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا، آج قوم ایک بہتر نظام کا تقاضا کر رہی ہے۔ اُس وقت منزل ایک نئی ریاست تھی، آج منزل ایک نئی ریاستی سمت ہے۔ اُس وقت قیادت نے سوچ بدلی تھی، آج قیادت نظام بدلنے کا عزم لیے کھڑی ہے۔یہ اجتماع اِس بات کا کھلا اعلان ہے کہ قوم کا دھارا بدلا جا سکتا ہے۔ اگر ایک فیصلہ کن قیادت موجود ہو، اگر عوامی طاقت بیدار ہو، اگر نوجوانوں کی توانائی، عورتوں کے حوصلے، بزرگوں کی دعائیں اور بچوں کی اُمیدیں یکجا ہو جائیں تو تاریخ کا دھارا بدلنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔جماعت اسلامی کا یہ اجتماع ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب پاکستان اپنی تاریخ کے اہم ترین موڑ پر کھڑا ہے۔ عالمی سیاست کے بدلتے ہوئے منظرنامے، علاقائی کشیدگی، معاشی دباؤ، دہشت گردی کے اثرات اور اندرونی سیاسی بحران مستقل طور پر قومی سلامتی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ اجتماع داخلی یکجہتی، نظریاتی وضاحت اور عوامی بیداری کا نیا باب لکھے گا۔اِن تین دنوں میں ہونے والے خطابات، پیش کی جانے والی قراردادیں، عوامی شرکت، نوجوانوں کی سرگرمی، خواتین کی شمولیت، رہنماؤں کی فکری باتیں اور عالم اسلام کے قائدین کا تعاون یہ سب مل کر ایک ایسی تصویر پیش کریں گے جو پاکستان کو اُس کی اصل منزل کی طرف لے جانے کے لیے نئی بنیاد فراہم کرے گی۔یہ اجتماع عوام کو بتائے گا کہ اگر منزل دُور بھی ہے تو راستہ واضح ہو چکا ہے۔ اگر مشکلات بڑھ بھی رہی ہیں تو حوصلے بھی مضبوط ہیں۔ اگر اندھیرے گہرے ہیں تو راستہ دکھانے والا مینار بھی موجود ہے اور اگر اُمیدیں کمزور پڑ رہی ہیں تو اُنہیں دوبارہ جگانے والے دل بھی زندہ ہیں۔یہی اجتماع کا اصل پیغام ہے اُمید، عزم، جدوجہد، تبدیلی اور ایمان۔یہ اجتماع عوام کے دل کی آواز ہے۔یہ اجتماع آئندہ نسلوں کے مستقبل کی نوید ہے۔یہ اجتماع نظام بدلنے کا آغاز ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں