ملک ابوبکرالیاس
لاہور کا دل کہلایا جانے والا مینار پاکستان ایک بار پھر تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے۔ اکیس، بائیس اور تئیس نومبر 2025 کے تین ایام ملک کے سیاسی و سماجی منظرنامے میں ایک نئی جنبش، ایک نئے شعور اور ایک نئی تحریک کا مرکز بننے والے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان اپنے ملک گیر اجتماع عام کا انعقاد اسی تاریخی مقام پر کر رہی ہے۔ وہ مقام جہاں کئی دہائیوں سے سیاسی شعور، عوامی بیانیے اور اجتماعی فیصلوں کی تاریخ رقم ہوتی آئی ہے۔اس سال کے اجتماع کا سلوگن ”بدل دو نظام“ ہے۔ ایک ایسا نعرہ جو ملک کی موجودہ صورتحال، عوامی احساسات اور قومی مسائل کی سنگینی کے پس منظر میں بے حد توجہ اور دلچسپی حاصل کر رہا ہے۔ اسی سلوگن کے ساتھ مختلف ذیلی تعبیرات بھی سامنے آرہی ہیں۔”گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کا مینار“ ”اُمید کی کرن“ ”تابناک اور روشن مستقبل کی نوید“یہ سب اس پورے بیانیے کا حصہ ہیں جس کے گرد جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت نے عوامی رابطہ مہم کو استوار کیا ہے۔یہ اجتماع ایک سیاسی اجتماع نہیں بلکہ جماعت اسلامی کی پوری فکری و تنظیمی تاریخ کا ایک خلاصہ بھی تصور کیا جا رہا ہے۔ اس تحریک کی جڑیں اس وقت مضبوط ہوئیں جب بانیِ جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلامی فکر و نظریہ کے تناظر میں ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جو اپنے نظم، فکری گہرائی اور اصولی سیاست کے باعث منفرد مقام رکھتی ہے۔سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے لے کر آج تک جتنے بھی رہنماء جماعت اسلامی کے اُمراء بنے،سب نے اس کاروان اورفکر مودودی سوچ کو آگے بڑھایا۔ اب حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں جماعت اسلامی کو ایک ایسی شخصیت بطور امیر جماعت اسلامی میسر آئی ہے جس نے کراچی سے لے کر پورے ملک تک ایک بھرپور عوامی تحریک کی بنیاد رکھی ہے۔ ان کی قیادت میں تنظیم متحرک، نوجوان فعال اور کارکنان پرجوش نظر آ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مینار پاکستان کا یہ اجتماع صرف ایک تنظیمی سرگرمی نہیں بلکہ ایک بڑے سیاسی اور سماجی پیغام کا استعارہ بنتا جا رہا ہے۔اس اجتماع کے ناظم لیاقت بلوچ ہیں۔وہی سیاسی مدبر جنہوں نے کئی دہائیوں تک جماعت اسلامی کے اندر اور باہر قومی سیاست، پارلیمانی کردار اور بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں منفرد مقام حاصل کیاہے۔ ان کے انتخاب کو ایک سنجیدہ اور بھرپور انتظامی فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس اجتماع سے جماعت اسلامی عوام کے اندر اپنا بیانیہ مزید واضح انداز میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ موجودہ سیاسی انتشار، بداعتمادی، بڑھتی مہنگائی، حکومتی نظام کی عدم کارکردگی اور عوامی مایوسی جیسے مسائل اس بیانیے کا بنیادی حصہ ہیں۔ایسے میں نظام کی تبدیلی کا نظریہ ”بدل دو نظام“کوئی محض نعرہ نہیں بلکہ ایک وسیع سیاسی اور سماجی اصطلاح ہے۔ جماعت اسلامی کا مؤقف ہے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی، عدالتی اور سیاسی ساخت عوامی مسائل کا حل دینے میں ناکام ہو چکی ہے اس لیے ایک منصفانہ اور عادلانہ نظام ضروری ہے۔ اس اجتماع میں مختلف اسلامی ممالک سے آنے والے قائدین،رہنماؤں کی شرکت اسے بین الاقوامی سطح پر بھی اہم بنا رہی ہے۔ ایسی شرکت جہاں جماعت اسلامی کے عالمی روابط کی نشاندہی کرتی ہے وہیں پاکستان کے داخلی سیاسی ماحول میں بھی اس کی معنویت کو بڑھاتی ہے۔پاکستان میں پچھلے کئی سالوں کے معاشی بحران، سیاسی بے یقینی اور سماجی اضطراب نے عوام میں شدید مایوسی پیدا کی ہے۔ ایسے میں جماعت اسلامی یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ نہ صرف اس مایوسی کو توڑنے کا ارادہ رکھتی ہے بلکہ”امید“کا بیانیہ آگے بڑھانا چاہتی ہے۔مینار پاکستان کی فضا ہمیشہ سے عوامی اجتماعات، تحریکوں اور قومی فیصلوں کی علامت رہی ہے۔ 1940 کی قرارداد پاکستان سے لے کر مختلف سیاسی تحریکوں تک یہ جگہ پاکستانی قوم کے اجتماعی شعور کا مرکز رہی ہے۔2025 کا اجتماع اسی تاریخی ورثے میں ایک اور باب کا اضافہ سمجھا جا رہا ہے۔ کارکنان اور قیادت کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اجتماع پاکستان کے اندر کسی بڑی تبدیلی خواہ وہ سیاسی ہو، سماجی ہو یا فکر ی نئی بنیاد رکھ سکتا ہے اگرچہ پاکستان کا سیاسی منظرنامہ ہمیشہ تغیر پذیر رہا ہے تاہم اس وقت ملک غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے۔ معاشی بے یقینی، سیاسی انتشار،اداروں کے درمیان کشیدگی اور عوامی اضطراب کا امتزاج ملک کے مستقبل کے لیے سوالات پیدا کر رہا ہے۔ایسے میں جماعت اسلامی کہاں کھڑی ہے؟ایک منظم، تربیت یافتہ اور اُصولی تنظیم ہونے کی شہر ت،بدعنوانی کے خلاف مضبوط مؤقف،فلاحی سرگرمیوں میں نمایاں کردار،نوجوانوں اور متوسط طبقے میں بڑھتی مقبولیت،بلدیاتی سطح پر مسلسل کامیابیاں،سوشل میڈیا پر مؤثر موجودگی یہ تمام عوامل جماعت اسلامی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں جن کی روشنی میں مینار پاکستان کا اجتماع اسے مزید سیاسی قوت بخش سکتاہے۔حافظ نعیم الرحمن کو نئی نسل کی سیاسی نمائندگی کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ان کی شخصیت میں تنظیمی نظم، عوامی استعداد، متحرک تدبیر اور عملی فعالیت کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ کراچی کی سیاست میں ان کی جدوجہدخواہ وہ بلدیاتی مسائل ہوں، شہری سہولیات، حقوقِ شہری یا انتخابی اصلاحات نے انہیں ایک نمایاں عوامی رہنما کے طور پر پیش کیا ہے۔مینار پاکستان کا یہ اجتماع ان کی قیادت کے لیے ایک بڑی آزمائش بھی ہے اور ایک نیا موقع بھی، جس سے وہ اپنے قومی بیانیے کو مضبوط تر کر سکتے ہیں۔ اجتماع عام میں مختلف اسلامی ممالک کے رہنماؤں کی شمولیت کو جماعت اسلامی اپنی فکری و تنظیمی کامیابی سمجھتی ہے۔ یہ شرکت نہ صرف جماعت کے عالمی روابط کی نمائندگی کرتی ہے بلکہ پاکستان میں اسلام کے بیانیے کے لیے بھی نئی بحثیں جنم دے سکتی ہے۔پاکستان کا عالمی سطح پر مثبت تاثر،بین الاقوامی اسلامی تحریکوں کے تجربات کا تبادلہ، اِس قسم کی ملاقاتیں اور خطابات نہ صرف کارکنان کے لیے حوصلہ افزا ہوتی ہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی ایک وسیع تر فکری ماحول پیدا کرتی ہیں۔جماعت اسلامی اپنے منظم کارکن قوت کے باعث ہمیشہ بڑے اجتماعات کو کامیابی سے منعقد کرتی رہی ہے۔ اس بار بھی ملک بھر سے آنے والے قافلوں، نوجوانوں کی رضاکار ٹیموں، خواتین ونگ کی سرگرمیوں، میڈیا کمیٹیوں اور تربیت یافتہ نظم کی منصوبہ بندی کو بے حد اہم سمجھا جا رہا ہے۔لاہور شہر کی سڑکیں، گلیاں، بینرز، رضاکار کیمپ، استقبالیہ مراکز اور ٹریفک پلان اس بات کی علامت ہیں کہ یہ کوئی معمولی اجتماع نہیں بلکہ ایک بھرپور سیاسی اور سماجی سرگرمی ہونے جا رہی ہے۔پاکستان میں اس وقت عوامی ذہنیت بے حد منتشر اور غیر یقینی کیفیت میں ہے۔ نوجوان بے روزگار، متوسط طبقہ مالی بحران سے دوچار، کاروباری طبقہ غیر یقینی میں مبتلااور عام شہری مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے۔ ایسے میں جو بھی سیاسی، سماجی یا فکری قوت اُمید کی کوئی کرن دکھاتی ہے عوام کی توجہ اُس کی طرف ضرور مبذول ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ اجتماع اِسی پس منظر میں ایک ”اُمید کے مینار“ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ اجتماع ملکی سیاست کا رخ بدل سکتا ہے؟یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ آیا جماعت اسلامی کا یہ اجتماع پاکستان کے سیاسی مستقبل پر براہِ راست اثر انداز ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اِس کا جواب وقت دے گا مگر چند حقائق اپنی جگہ موجود ہیں۔جماعت اسلامی کی تنظیمی قوت ایک حقیقت، عوامی سطح پر بڑھتا سیاسی شعور،نئے چہروں کی مقبولیت،نوجوانوں میں بڑھتی سیاست پسندی،موجودہ سیاسی خلا،اِن تمام عوامل کے ہوتے ہوئے یہ اجتماع پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل بن سکتا ہے۔مینار پاکستان کا اجتماع عام 2025 نہ صرف جماعت اسلامی کی تنظیمی طاقت کا اظہار ہے بلکہ ملک کے موجودہ حالات میں ایک فکری مکالمہ بھی۔ یہ اجتماع اپنے اندر کئی سوالات، کئی اُمیدیں اور کئی امکانات لیے ہوئے ہے۔یہ دیکھنا باقی ہے کہ ”بدل دو نظام“ کا یہ نعرہ کیا واقعی پاکستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے میں کوئی عملی تبدیلی لا سکے گا یا یہ بھی محض سیاسی نعروں کی ایک اور کڑی ثابت ہوگامگر فی الحال مینار پاکستان کے گرد چلتی ہوئی یہ تازہ ہوا، کارکنان کا جوش، عوام کی توجہ اور قیادت کا اعتماد اِس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی نیا باب ضرور لکھا جا رہا ہے۔

