گستاخیاں / ولی محمد زہری
سود… وہ گناہ جسے قرآن نے صرف حرام نہیں کہا بلکہ سود لینے اور دینے والے کو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کا اعلان کرنے والا قرار دیا۔ تاریخِ اسلام میں کسی اور گناہ کو اس شدت سے مذمت نہیں کی گئی۔
حکایت ہے کہ ایک صحابیؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟
آپؐ نے فرمایا: اللہ کا شریک ٹھہرانا۔
انہوں نے پوچھا: اور؟
فرمایا: کسی مؤمن کا ناحق قتل۔
پوچھا گیا: اور؟
آپؐ نے فرمایا:
“سود کھانا”
کیونکہ سود وہ ناسور ہے جو معاشروں کی جڑیں کھوکھلی کرتا ہے، غریب کو غریبتر اور ظالم کو مزید طاقتور بنا دیتا ہے۔
اسی لعنت نے نصیرآباد کی زمین کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ یہاں سود اور “پیمنٹ” کے نام پر قائم کاروبار ہزاروں گھروں کو برباد، نسلوں کو گروی اور انسانوں کو زندہ درگور کر رہا ہے۔ پشتون بیلٹ سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ اب سالہا سال سے نصیرآباد کے کھیتوں، بازاروں اور گلیوں تک پھیل چکا ہے۔ اسے “کاروبار” کہا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ معاشی دہشت گردی ہے۔
نصیرآباد ایک زرعی خطہ ہے جہاں نوے فیصد آبادی کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ لیکن زراعت مسلسل زوال کا شکار ہے۔ کسان بیج، کھاد اور زرعی زہر تک نقد نہیں خرید سکتے، سو وہ “پیمنٹ” کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔ اگر نقد یوریا چار ہزار کی ملے تو پیمنٹ پر چھ سے سات ہزار۔ ڈی اے پی نقد بارہ ہزار ہے، مگر پیمنٹ پر سترہ سے اٹھارہ ہزار۔
یہ کھلا سود ہے… مگر نام بدل کر اسے “کاروبار” کہا جا رہا ہے۔ اب حالات یہاں تک آ گئے ہیں کہ ٹریکٹر، کاریں، موٹر سائیکل، موبائل فون بلکہ گھر بنانے کا میٹریل تک پیمنٹ پر مل رہا ہے۔ تین ماہ، چھ ماہ یا سال کے عوض بیس سے تیس فیصد اضافی رقم دینا پڑتی ہے۔ یہ وہی سود ہے جس کے خلاف قرآن چیخ چیخ کر خبردار کرتا ہے۔
موروثی غلامی کا جدید روپ نصیرآباد کے زمینداروں نے کسانوں کی زندگی کو اس حد تک جکڑ رکھا ہے کہ آج بھی وہاں موروثی غلامی کا راج ہے۔ٹریکٹر زمیندار کا، ریٹ زمیندار کے، کھاد اس کے، بیج اس کے، اور کسان مجبور۔ پوری پوری نسلیں قرض تلے دب کر گروی ہو چکی ہیں۔ آہ! کیسی ستم ظریفی ہے کہ غلامی کے خلاف آواز اٹھانے والے معاشرے میں آج بھی انسان انسان کا غلام ہے۔ اسلامی تاریخ کی یادگار مثال خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے دور میں ایک شخص نے کسی غلام کے ساتھ مالی ظلم کیا تو عمرؓ نے فرمایا:
“تم لوگوں نے کب سے بندوں کو غلام بنا لیا، جب کہ ان کی مائیں انہیں آزاد جنا کرتی تھیں!”
اگر حضرت عمرؓ آج نصیرآباد کے کسان دیکھ لیتے تو دھرتی ان کے غم سے لرز اٹھتی۔ المیہ یہ نہیں کہ ہندو تاجر دس فیصد سود لے رہے ہیں…اصل المیہ یہ ہے کہ “مسلمان” تاجر بیس سے تیس فیصد پر یہ کام کر رہے ہیں۔ اور اسے فخر سے حلال بھی کہہ رہے ہیں! یہ قوم کا وہ طبقہ ہے جو بسم اللہ پڑھ کر سود کا کاروبار کرتا ہے اور پھر دلیل دیتا ہے کہ “اہم علما نے اجازت دی ہے”۔
سوال یہ ہے، کیا کوئی عالم قرآن کی اس آیت کو بدل سکتا ہے؟
“اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقے کو بڑھاتا ہے”
(البقرہ)
افسوس کہ علمائے کرام بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہیں۔ ایک گروہ اسے “تجارت” کہہ کر جائز قرار دیتا ہے، جبکہ دوسرا اسے کھلا ظلم اور حرام قرار دیتا ہے۔ اگر علماء متحد ہو جائیں، قبائلی نظام متحرک ہو جائے اور انتظامیہ سنجیدہ ہو جائے تو یہ قبیح رسم چند ماہ میں ختم ہو سکتی ہے۔ نصیرآباد میں اس دھندے کا بھانڈا اس وقت پھوٹا جب معروف تاجر دولت رام کی کروڑوں روپے کی رقم پھنس گئی، اور وہ مجبور ہو کر عدالت پہنچا۔ اس نے سود خوروں کی لمبی فہرست دینے کا اعلان کیا، جس پر مسلمان تاجر بری طرح بوکھلا گئے۔ صرف 31 ہندو سودخوروں کے نام سامنے آئے، مگر مسلمان “بڑے کھلاڑیوں” کے نام آج بھی پردے میں ہیں۔ سوال یہ ہے کیا حکومت ان بااثر مسلمان سود خوروں کے نام بھی ظاہر کرے گی؟ کیا ان ظالموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا؟ کیا علماء اس ناسور کے خلاف فتویٰ، تحریک اور بیداری مہم شروع کریں گے؟ یا پھر یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہے گا۔ اور انسانیت کی لاشیں تلے سود کا کاروبار پھلتا پھولتا رہے گا؟
روایت ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص سود کھاتا تھا۔ جب مرگیا تو اس کے گھر والوں نے ایک پرندے کو اس کی قبر کے اندر جاتے دیکھا اور پھر باہر آتے ہی اس کے پروں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ اس واقعے سے لوگوں نے سمجھ لیا کہ سود کی آگ صرف دنیا کو نہیں جلاتی… قبر تک پہنچ جاتی ہے۔
کہاں ہیں وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام لے کر سیاست کرتے ہیں؟ کہاں ہیں وہ تنظیمیں جو دین کے نام پر تحریک چلاتی ہیں؟
کیا کوئی اٹھے گا جو نصیرآباد کی مظلوم انسانیت کو سود کے پنجوں سے نجات دلائے؟
یا ہم سب تماشائی بن کر اس ظلم کو اسلامی معاشرے کے ماتھے پر کلنک بنتا دیکھتے رہیں گے؟

