ڈوبتے ہوؤں کی بڑھانے کو بے کسی

ڈاکٹر حسین احمد پراچہ
یہ تصویر دریائے سوات کی ہے۔ ایک ٹیلے پر دس بارہ افراد چیخ پکار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ لوگ پایاب پانی سے گزر کر یہاں مینگورہ بائی پاس کے قریب دریائی ٹیلے پر بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے۔ ایک ہی خاندان کے ان افراد کا تعلق پنجاب کے شہر ڈسکہ سے ہے۔ پہاڑی دریاؤں کے مزاج سے ناواقف یہ لوگ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ نہ تو یہاں کوئی بورڈ تھا کہ دریا خشک بھی ہو تو اس کے اندر داخل نہ ہوں اور نہ ہی دریا کے کنارے ڈھابے والوں نے خبردار کیا کہ آگے مت جائیں۔ بہرحال آناً فاناً ایک دریائی ریلا تیز رفتاری سے بہتا ہوا اوپر پہاڑوں سے اترا اور دیکھتے ہی دیکھتے بدقسمت خاندان کے چاروں طرف پھیل گیا۔ اس ناگہانی آفت سے گھبرا کر خاندان کے افراد مدد کے لیے پکارنے لگے۔ موت و حیات کی اس کشمکش میں وہ ڈیڑھ سیکنڈ یا ڈیڑھ منٹ تک نہیں بلکہ پورا ڈیڑھ گھنٹہ مبتلا رہے اور چیخ و پکار کرتے رہے۔
سامنے کنارا تھا جہاں ریسٹورنٹ کے مالک سمیت بہت سے لوگ طوفانی ریلے میں گھرے لوگوں کی بے بسی کا نظارہ کر رہے تھے۔ وہ مدد تو کرنا چاہتے تھے مگر خود بے بس تھے۔یہ کنارا پھیلتے پھیلتے سوات سے پشاور تک اور اسلام آباد سے کراچی تک پھیل گیا۔ چند ہی منٹوں میں بے بسی کی یہ وڈیو بیرونِ ملک تک جا پہنچی مگر یہاں اندرونِ ملک سے ڈیڑھ گھنٹے تک کوئی مدد کو نہ پہنچا۔ بدقسمت خاندان بار بار آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا کہ شاید ہیلی کاپٹرز کو جھنڈ نظر آ جائے اور ہمیں بچا لے۔
حیرت ہے بڑے بڑے سازو سامان والے اداروں تک غالباً یہ خبر پہنچی نہ اُن کی طرف سے 90 منٹ تک کوئی ہل جل ہوئی۔ ریسکیو کی کوئی گاڑی گرتی پڑتی اس وقت پہنچی جب موجوں نے زندہ انسانوں کو نگل لیا تھا۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں تو چند منٹوں میں ادھر کی دنیا اُدھر ہو جاتی ہے مگر یہاں 17 بے بس افراد کی جان نہ بچائی جا سکی اور وہ حکومتی بے حسی اور ریسکیو اداروں کی نااہلی اور بے خبری کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جو سیاحت کے لیے آئے تھے وہ ہنستے مسکراتے چھوٹے موٹے تحائف کے ساتھ اپنے گھروں کو نہ لوٹ سکے‘ اس کے بجائے اُن کی لاشیں واپس پہنچیں تو کہرام مچ گیا۔
دریائے سوات میں گھرے ان افراد کو بآسانی بچایا جا سکتا تھا۔ ہمارے اور مغرب کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں تمام تر احتیاطی تدابیر حفظ ماتقدم کے طور پر اختیار کی جاتی ہیں۔ سیاحتی مقامات پر جگہ جگہ ریسکیو کے انتظامات ہوتے ہیں۔ قدم قدم پر ”خبردار‘‘ تو نہیں لکھا ہوتا مگر اتنا ضرور لکھا ہوتا ہے کہ آگے خطرہ ہے! سلامتی کے لیے کنارے پر رہیے۔ اتنا ہی سیاحوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اتنے بڑے سانحے کے بعد بعض وفاقی وزیروں نے صوبائی حکومت کی نااہلی پر لفظی کوڑے برسانے شروع کر دیے۔
یہ ایک انسانی مسئلہ تھا‘ اس کی ذمہ داری سارے ہی سسٹم پر عائد ہوتی ہے۔ مقامی انتظامی ذمہ دار چند منٹوں میں جائے حادثہ پر کیوں نہ پہنچے‘ انہوں نے اعلیٰ صوبائی حکمرانوں کو خبردار کر کے اُن سے فی الفور امدادی ٹیمیں بھیجنے کی درخواست کیوں نہ کی‘ صوبائی حکومت نے ایمرجنسی لائن پر وفاقی حکومت اور دفاعی اداروں کے ریسکیو ماہرین اور ہیلی کاپٹر سے مدد کیوں نہ طلب کی؟ ہیلی کاپٹر تربیت یافتہ عملے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پچیس تیس منٹ میں وہاں پہنچ سکتا تھا۔ اتنی بڑی غفلت پر کوئی صوبائی وزیر مستعفی نہ ہوا۔ حیرت ہے کہ اتنے بڑے انسانی سانحے اور شدید غفلت کا چیف جسٹس آف پاکستان نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔
سوات ٹریجڈی سے میری یادوں میں سات جنوری 2022ء کے برفانی سانحے کی یاد تازہ ہو گئی۔ تب ایک ڈیڑھ گھنٹہ نہیں‘ پوری رات قسمت کے مارے بیچارے سیاح اپنی گاڑیوں میں کہ جو برفانی قبریں بن چکی تھیں‘ لمحہ بہ لمحہ اپنی طرف آتی ہوئی موت میں جاتے رہے۔ گاڑیوں کے اوپر برف‘ ان کے چاروں طرف برف‘ ہر طرف برف ہی برف۔ نہ پہلے سے کوئی حفاظتی واحتیاطی تدابیر‘ نہ سیاحوں کو خبردار کرنے کا کوئی نظام‘ نہ گاڑیوں کی ایک خاص حد سے زیادہ آمد پر پابندی۔ اس سانحے میں 23 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ بعد میں آج کی طرح‘ صوبائی اوروفاقی حکومتیں آپس میں دست وگریباں رہیں۔ انسانی غفلتوں سے ٹرینوں کے بھی ہولناک حادثے ہوئے مگر کسی وزیر ریلوے نے استعفیٰ نہیں دیا۔ اس بات سے غرض نہیں کہ تب کس کی حکومت تھی اور اب کس کی حکومت ہے۔ من حیث الکُل ہمارے رویے یہ ہیں کہ سیاحتی مقامات کے چرچے کر دیے جائیں مگر وہاں سہولتوں کی فراہمی پر کوئی توجہ نہیں۔ دراصل حکمرانوں نے ان سیاحتی مقامات کی طرف آمد ورفت کے لیے ہیلی کاپٹر کا انتظام کر رکھا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں بھی اُن کی کئی ایکڑوں پر پھیلی رہائش گاہوں کے انتظامات کے لیے خدام کی فوج ظفر موج ہوتی ہے۔ اگر کبھی موسمی رپورٹیں لے کر سڑک کے راستے پہاڑی علاقوں کی طرف آتے جاتے ہیں تو وہ درجنوں گاڑیوں کے جلو میں ہوتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ عام بندے کو سیاحت کے لیے جان سے گزرنا پڑتا ہے۔
اُن کے نزدیک عوامی جانوں کی کوئی قدر وقیمت ہوتی تو وہ اتنی غفلت نہ کرتے۔ ہمارے حکمران بس بعد از مرگ واویلا کر کے لقمۂ اجل بننے والوں کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔ سانحۂ سوات کے بعد خیبر پختونخوا کی حکومت نے اپنی خوفناک غفلت پر پردہ ڈالنے کے لیے دریائے سوات کے کنارے عوامی ریستورانوں اور ڈھابوں کو بلڈوزروں سے زمیں بوس کر دیا اور سینکڑوں لوگوں کے وسیلۂ روزگار کو خاک میں ملا دیا۔ کیا اتنے بڑے سانحے کا محض یہی ایک سبب تھا؟ کیا ان غیر اجازت یافتہ ڈھابوں کی مقامی انتظامیہ کو خبر نہ تھی؟ ایسی جگہوں پر خبردار کے نشانات اور سیاحوں کے لیے ہدایات کے بورڈ کیوں نہیں نصب کیے گئے تھے؟
کے پی حکومت کے وزیر اطلاعات نے یہ کہہ کر عذرِ گناہ بدتر از گناہ پیش کیا کہ قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے ہم نے اس لیے ہیلی کاپٹر نہیں بھیجا تھا کیونکہ موسم خراب تھا جبکہ ایسا ہرگز نہ تھا۔ دوسری جانب خبروں کے مطابق تین جولائی بروز جمعرات کے پی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف بڑی شان سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے سوات کے سبزہ زار میں اترے۔ ہیلی کاپٹر تو اس روز آنا چاہیے تھا۔ اس پر بھی انہوں نے ایک مضحکہ خیز عذر تراشا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ یہ ہیلی کاپٹر چھوٹا ہے‘ امدادی کاموں کے لیے بڑا ہیلی کاپٹر چاہیے ہوتا ہے۔
پوری قوم صوبائی و وفاقی حکومت اور قومی ریسکیو مراکز سے سوال کرتی ہے کہ ڈیڑھ گھنٹے تک زندہ سلامت انسان بے کسی کی تصویر بنے ہاتھ ہلا ہلا کر مدد کے لیے پکارتے رہے‘ حکومتوں اور بڑے بڑے اداروں کی طرف سے اُن کی مدد کو کوئی کیوں نہ پہنچا؟ سبھی کنارے پر بیٹھے لمحہ بہ لمحہ موت کے منہ میں جاتے ہوئے انسانوں کی بے بسی کا نظارہ کرتے رہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے سچ ہی تو کہا تھا:
ہاں ڈوبتے ہوؤں کی بڑھانے کو بے کسی
حدِ نظر پہ کوئی کنارا بھی چاہیے

اپنا تبصرہ بھیجیں