ڈھاکہ کی آخری رات

رؤف کلاسرا
ڈھاکہ کی اُس عدالت نے بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی جس کے حکم پر مغربی پاکستان کی آخری مشترکہ اسمبلی کے سابق سپیکر قادر چوہدری کے بیٹے صلاح الدین چوہدری کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی تو مجھے ڈھاکہ میں اپنی آخری رات یاد آگئی۔
میں 2008 ء میں ڈھاکہ گیا تھا جہاں بنگلہ دیش میں بڑی مدت کے بعد انتخابات ہورہے تھے۔ میں پہلی دفعہ ڈھاکہ گیا تھا اور میرے لیے سب کچھ نیا تھا۔ بنگلہ دیش یا ڈھاکہ بارے صرف کتابوں میں پڑھا تھا۔ یہ شہر دیکھنے اور لوگوں سے ملنے کا موقع پہلی دفعہ ملا تھا اور اوپر سے الیکشن کے دن تھے لہٰذا ہر طرف گہما گہمی تھی۔ الیکشن کے وقت وہاں فوج کی زیر نگرانی نگران حکومت تھی۔ واضح طور پر لگ رہا تھا کہ وہاں کی نوجوان نسل‘ جو درسی کتب میں1971ء کے واقعات پڑھ کر جوان ہوئی تھی‘ جارحانہ موڈ میں تھی۔ حسینہ واجد کی پارٹی نے برسوں بعد نیا نعرہ لگایا ہوا تھا کہ وہ 1971 ء کے جنگی جرائم میں ملوث لوگوں کا ٹرائل کرے گی اور انہیں سزائیں دی جائیں گی۔ یہ نعرہ وہاں بہت مقبول ہو رہا تھا۔ بنگلہ دیش ابھی تک 1971ء میں پھنسا ہوا تھا۔ جہاں 1971ء کا ایشو تھا وہیں حسینہ واجد کی جماعت اپنے سیاسی مخالفین کو بھی اس بہانے سزائیں دینا چاہتی تھی۔ بیگم خالدہ ضیا کی جماعت کا جھکاؤ پاکستان کی طرف سمجھا جاتا تھا اور ان کے دور میں پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات اچھے رہے جبکہ حسینہ واجد کی جماعت بھارت کی طرف جھکاؤ رکھتی تھی۔ یوں اگر دیکھا جائے تو یہ الیکشن حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیا کی جماعتوں میں ان سیاسی فورسز کے درمیان تھا جو پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات یا دشمنی کے حامی تھے۔ یوں پاکستان کا اس پورے الیکشن کے عمل میں زیر بحث آنا فطری سی بات تھی۔ پہلے یہ کام بھارت میں ہوتا تھا کہ پاکستان کے نام پر وہاں الیکشن لڑے جاتے تھے تو اب بنگلہ دیش میں بھی یہی نعرہ چل رہا تھا۔ حسینہ واجد نے نوجوانوں کو ٹارگٹ کیا کہ ہم 1971ء کے جنگی جرائم کا بدلہ لیں گے۔ حسینہ واجد ان دنوں بنگلہ دیش میں نہ تھیں بلکہ لندن جلاوطنی میں تھیں۔ وہ انتخابات جیت گئیں اور اگلے دن لندن سے ڈھاکہ حلف لینے پہنچ گئیں۔ میں صلاح الدین چوہدری کی دعوت پر ڈھاکہ گیا تھا۔ جب وہ پاکستان آئے تھے تو ہماری ملاقات کا سبب ہمارے دوست اسحاق خاکوانی بنے تھے جو اُن کے بچپن کے دوست اور بہاولپور صادق پبلک سکول میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ خاکوانی صاحب کے بزرگوں کی پاکستان کی قومی اسمبلی کے چٹاگانگ سے تعلق رکھنے والے سپیکر فضل القادر چوہدری سے دوستی تھی۔ جب وہ جنرل ایوب دور میں سپیکر بنے تو مسئلہ پیدا ہوا کہ بچے کہاں پڑھیں گے تو خاکوانی صاحب کے بزرگ نے مشورہ دیا کہ صادق پبلک سکول داخل کرائیں۔ اب گرمیوں میں صلاح الدین چوہدری اسحاق خاکوانی کیساتھ بہاولپور سے ملتان آ جاتے اور وہیں رہتے۔ جب 1971ء میں بنگلہ دیش بنا تو صلاح الدین اُس وقت پنجاب یونیورسٹی میں تھے۔ بعد میں وہ بنگلہ دیش چلے گئے اور وہاں سیاست میں حصہ لیا اور متعدد دفعہ پارلیمنٹ کے ممبر اور خالدہ ضیا کی کابینہ میں بھی رہے۔ صلاح الدین کا بچپن اور لڑکپن بہاولپور‘ ملتان اور لاہور میں گزرا تھا لہٰذا وہ بنگلہ دیشی سے زیادہ پاکستانی تھے۔ وہ اکثر پاکستان آتے اور پرانے دوستوں کیساتھ وقت گزارتے تھے۔ 2008ء کے وسط میں وہ پاکستان آئے تو میری اسحاق خاکوانی کیساتھ ان سے ملاقات ہوئی اور چند لمحوں میں میری اُن سے قربت ہو گئی۔ کھلے ڈلے انسان تھے۔ گپ شپ‘ لمبے لمبے قہقہے‘ انہیں فرفر سرائیکی بولتے سن کر میں حیران ہوا تو بولے سائیں ساری عمر بہاولپور ملتان میں سرائیکیوں میں گزری ہے۔ وہ اسحاق خاکوانی کے گھر کا فرد تھے۔
خیر انہوں نے مجھے کہا کہ آپ ڈھاکہ آئیں‘ ہمارے ہاں الیکشن ہو رہے ہیں ذرا وہ بھی دیکھیں کہ کیسے لڑے جاتے ہیں۔ مجھے بھی شوق ہوا۔ اپنے اخبار کو کہا تو انہوں نے کہا ضرور جائیں اور میرے ٹریول اور اخراجات کا بندوبست کر دیا۔ خیر ڈھاکہ میں الیکشن میں حسینہ واجد کی بڑی فتح کے بعد ماحول مزید بدل گیا تھا۔ پاکستان لوٹنے سے ایک رات قبل صلاح الدین چوہدری نے مجھے اپنے گھر ڈنر پر بلایا۔ اس وقت پاکستان میں بنگلہ دیش کی سفیر یاسمین مرشد بھی موجود تھیں جو شاید ان کی رشتہ دار تھیں۔ اگرچہ حسبِ عادت صلاح الدین چوہدری قہقہے لگا رہے تھے لیکن انکی باتوں سے پریشانی جھلک رہی تھی۔ کہنے لگے: اب یہاں کے حالات بدل جائیں گے۔ پاکستان بنگلہ دیش کا وہ تعلق نہیں رہے گا۔ بھارت کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا۔ بھارتی ایجنسیاں انکی جان کی دشمن تھیں کہ انہیں بنگلہ دیش میں پاکستان کا دوست سمجھا جاتا تھا۔ وہ خطرات کو بھانپ رہے تھے کہ اب حسینہ واجد سب سے انتقام لے گی۔ کھانے کے بعد ہم ان کے سٹڈی روم میں بیٹھے تو وہاں ایک کتاب مجھے پسند آئی۔ مجھے اس میں دلچسپی لیتے دیکھ کر مسکرائے اور اٹھا کر مجھے دے دی اور قہقہہ لگا کر کہا: سنبھال کر رکھنا‘ پاکستان آؤں گا تو واپس لوں گا۔ وہی ہوا کچھ دنوں بعد حسینہ واجد کی حکومت بنی اور اس نے ایک ٹریبونل قائم کر کے اپنی مرضی کا جج لگا کر اپنے سیاسی مخالفوں پر جنگی جرائم پر گرفتاریاں اور مقدمے درج کر لیے۔ جماعت اسلامی کے لیڈروں کے علاوہ صلاح الدین چوہدری بھی ان میں شامل تھے۔ ان پر بھی فسادات اور ایک ہندو کو قتل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ جس تاریخ میں فسادات کا الزام تھا اُن دنوں صلاح الدین چوہدری پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔ ان کے دوستوں اسحاق خاکوانی‘ محمد میاں سومرو اور دیگر نے ڈھاکہ کی اس عدالت کو لکھا کہ وہ وہاں پیش ہو کر گواہی دینا چاہتے ہیں اور دستاویزی ثبوت پیش کرنا چاہتے ہیں کہ ان دنوں صلاح الدین لاہور میں تھا لیکن حسینہ حکومت نے ویزے نہیں دیے۔ ان دوستوں نے بڑا زور لگایا لیکن کچھ نہ ہو سکا۔ آخر کار ایک دن صلاح الدین کو پھانسی لگانے کا حکم دیا گیا۔ صلاح الدین کو کسی طرح جیل میں فون مل گیا تھا جس پر وہ اسحاق خاکوانی سے رابطے میں رہتے تھے۔ مجھے بھی اسحاق خاکوانی نے نمبر دیا۔ میرا ان سے رابطہ ہوا اور کہا کہ ان کی کتاب سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔ جواباً ان کا وہی قہقہہ آیا اور بولے: بھرا جی اب مشکل ہے۔ میرا دل مٹھی میں آ گیا تھا۔
صلاح الدین چوہدری نے سب کو منع کر دیا کہ کوئی حکومت سے رحم کی اپیل نہیں کرے گا۔ حکومت نے پھر بھی جھوٹی خبر چلوا دی کہ انہوں نے رحم کی اپیل کی تھی‘ جس پر انکے خاندان نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے۔ جب ان کی اپنے بچوں اور خاندان سے آخری ملاقات کرائی گئی تو بقول اسحاق خاکوانی وہ گپ شپ لگاتے رہے‘ لطیفے سناتے رہے‘ سب کو کہا کہ کسی نے رونا دھونا نہیں۔ 2015ء میں خوبصورت چٹاگانگ کے اس خوبصورت چوہدری کو پھانسی دی گئی اور میں کئی دن ڈپریس رہا۔اب خبر آئی ہے کہ جس ٹریبونل سے صلاح الدین کو پھانسی دلوائی گئی تھی اسی نے حسینہ واجد کو چھ ماہ کی قید کی سزا سنائی ہے۔ جو ٹریبونل مخالفوں سے انتقام لینے کیلئے بنوایا تھا اب اس کا رخ خود حسینہ واجد کی طرف ہو گیا ہے۔ اور ابھی تو شروعات ہیں۔
جس دن حسینہ واجد کا سورج ڈوبا تو اگلے دن صلاح الدین کی فیملی اپنے آبائی گاؤں ان کی قبر پر گئی کہ ظلم کی رات ختم ہو گئی تھی۔ میں نے بھی اُس دن صلاح الدین کی دی ہوئی وہ کتاب مشکل سے تلاش کی جو ڈھاکہ کی اس آخری رات اپنے سٹڈی روم میں صلاح الدین نے مجھے دی تھی۔ میں نے انگلینڈ کے سیاسی سکینڈلز پر لکھی وہ کتاب ہاتھوں میں لی اور اس پر صلاح الدین کے ہاتھوں کے سترہ سال پرانے لمس کو کافی دیر تک محسوس کرتا رہا۔ اچانک صلاح الدین کا مسکراتا چہرہ میری یادوں میں اس تاکید کے ساتھ ابھرا سوہنٹرا اس کتاب کو سنبھال کر رکھنا۔ کسی دن لینے آؤں گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں