دین یا فرقہ؟

خورشید ندیم
ہمارا مسئلہ دین نہیں‘ فرقہ ومسلک ہے۔ ہم اسی عصبیت میں جیتے اور اسی کو دین سمجھتے ہیں۔ ہم اپنی فرقہ وارانہ شناخت کے تحفظ کے لیے پُرجوش ہیں نہ کہ دین کے لیے۔
امت کا مرکز ومحور پیغمبر کی ذات ہوتی ہے۔ پیغمبر ہی سے امت بنتی ہے۔ اس شجرِ طیبہ سے بہت سے شاخیں پھوٹتی ہیں۔ وہ لوگ جو حالتِ ایمان میں آپﷺ کے ساتھ رہے (الذین معہ)۔ وہ جنہوں نے آپﷺ کے گھر میں‘ آپﷺ کی صحبت میں وقت گزارا (امہات المومنین‘ آپﷺ کی بیٹیاں‘ نواسے نواسیاں‘ خدام) یہ سب ہمارے سر آنکھوں پر۔ ہمارا ان سے محبت وعقیدت کا رشتہ ہے جو بہت گہرا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ یہ اس پاکیزہ شاخ کے برگ وبار ہیں جو ہماری محبت و عقیدت کا حقیقی مرکز ہے۔ ہم جب شجر کے بجائے شاخوں کو اپنی شناخت بناتے ہیں تو ترتیب الٹ جاتی ہے۔ یہیں سے فرقہ وارانہ عصبیت جنم لیتی اور پھر دیوارکھڑی ہو جاتی ہے۔
فرقے سے آگے ایک درجہ اور ہے۔ یہ مسلک ہے۔ ان شاخوں پر جو رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں‘ جو پھل لگتے ہیں‘ ہمارے جسم وجاں ان سے معطر ہوتے اور ہماری روحانی غذا کا سامان بنتے ہیں۔ یہ ہماری ضرورت ہیں اور ہمیں بہت عزیز ہیں۔ ان کا یہ رنگ اور ذائقہ اس وجہ سے ہے کہ یہ اسی شجرِ طیبہ کا حصہ ہیں۔ یہ ان کا شخصی جوہر نہیں۔ اگر یہ اس شجر سے الگ ہو جائیں تو ہمارے لیے ناقابلِ ذکر ہو جائیں۔ ہم ایک درجے میں ان کو بھی اپنی شناخت بنا لیتے ہیں۔ یہ مسلکی تعصب ہے۔ یہ تعصب کی ایک اور دیوار ہے جو ہم کھڑی کر دیتے ہیں۔ اب ایک شجر کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں اور ہم نے ان کے درمیان دیواریں کھڑی کردی ہیں۔ دیوار کے اس طرف رہنے والے‘ اُن پھولوں کی مہک سے محروم ہیں جو دوسری طرف کھلے ہیں۔ اُدھر بیٹھا ہوا اس پھل کے ذائقے سے بے خبر ہے جو دیوار کے اس طرف ہے۔
نقصان میں کون رہا؟ وہ سب جنہوں نے خود کو کسی ایک شاخ سے وابستہ کر لیا۔ وہ دوسری شاخوں پر اُگنے والے خیر سے محروم رہ گئے۔ نفع میں وہی رہا جس نے اُس پاکیزہ درخت کو اپنی شناخت بنایا اور اس سے جڑی ہر شاخ پر اگنے والے پھل اور پھو ل سے اپنی روحانی واخلاقی بالیدگی اور صحت کا اہتمام کیا۔ یہ ابوبکرؓ وعلیؓ ہوں یا عائشہؓ و فاطمہؓ، ان کی پاکیزہ سیرتوں سے اپنے اور اہلِ خانہ کے کردار کو منور کیا۔ تمام فقہوں اور علما سے راہنمائی لی اور سفینۂ حیات کو بحرِ شریعت سے نکلنے نہیں دیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہدایت کا واحد ماخذ اللہ کے رسولﷺ ہیں۔
ہم سڑکوں اور چوراہوں پر جو جوش وخروش دیکھتے ہیں‘ یہ سب ہماری فرقہ وارانہ اور مسلکی شناختوں کا اظہار ہے جسے ہم دین کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ اس سے تعلق باللہ کو مضبوط کرنا مطلو ب نہیں کہ یہ ریاضت خلوت گاہوں میں ہوتی ہے۔ اس کے لیے لوگ معتکف ہوتے ہیں۔ خود کو دنیاداری سے الگ کرتے اور اپنے پروردگار کے لیے خاص ہو جاتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ جلوت میں بھی احساسِ بندگی باقی رہے۔ ہم اگر گلی وبازار کی سرگرمیوں کو اپنی شہ رگِ حیات قرار دیتے ہیں تو اس سے مراد ہمارے مسلک اور فرقے کی حیات ہے نہ کہ دین کی۔ دین کی شناخت قرآن ہے اور رسولﷺ۔ زمین پر بیت اللہ ہے اور مسجدِ نبوی۔ دیگر شناختیں ہمیں عزیز ہیں مگر اس شناخت کی نسبت سے۔
دین میں حفظِ مراتب اور ترتیب کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ ترتیب بدل جانے سے دین کی صورت بدل جاتی ہے۔ لوگ اس کی سنگینی کو نہیں جانتے اور اسی سے افراط وتفریط کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی وہ بے احتیاطی ہے‘ اہلِ کتاب جس کا شکار ہوئے۔ قرآن مجید نے اس کو بطورِ خاص بیان کیا۔ ہمارے اور اہلِ کتاب کے مابین اصل فرق تلاش کیا جائے تو وہ یہی ہے۔ سیدنامسیح علیہ السلام ہمارے ایمان کا بھی حصہ ہیں مگر ہم انہیں اللہ کا بندہ اور رسول مانتے ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق انہوں نے گہوارے میں کلام کیا اور اپنا تعارف یہی کرایا کہ ‘میں اللہ کا بندہ ہوں‘۔ سیدہ مریم کا قرآن مجید نے جس اسلوب میں ذکر کیا ہے‘ واقعہ یہ ہے کہ الہامی ادب میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ یہ بیان مگر جس طرح حفظِ مراتب کے ساتھ ہوا ہے‘ وہ خود قرآن مجید کے خدا کا کلام ہونے کی شہادت ہے۔
ہم نے فرقہ وارانہ ا ور مسلکی تقسیم پر اصرار کیا اور سال کے دنوں کو اپنے مابین تقسیم کر لیا۔ محرم اہلِ تشیع کے نام ہو گیا اور ربیع الاوّل بریلوی مسلک نے اپنے نام کر لیا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ سب دن اللہ کے ہیں اور ان لوگوں سے ہمارا تعلق اسی نسبت سے ہے۔ یکم محرم کو سیدنا عمرؓ شہید ہوئے اور دس محرم کو سیدنا حسینؓ۔ رمضان میں سیدہ عائشہؓ کی وفات ہوئی اور سیدنا علیؓ کی شہادت بھی اسی مہینے میں ہوئی۔ اس میں چند مستثنیات ہیں۔ جیسے یومِ عرفہ۔ جیسے ماہِ رمضان۔ دیگر تمام ایام ان معنوں میں ایک جیسے ہیں کہ ان شخصیات سے ہمارا تعلق بھی یکساں طور پر قائم رہنا چاہیے۔ جنہیں ہم محرم میں یاد کرتے ہیں‘ ان کی سیرت کو ہم سال کے دوسرے مہینوں میں بھی فراموش نہ کریں۔ اس میں شبہ نہیں کہ کچھ دن کسی واقعے کی نسبت سے اہم ہو جاتے ہیں اور انہیں بطورِ خاص منایا جاتا ہے۔ اس میں حرج نہیں۔ حرج اس میں ہے کہ اسے تشخص کے طور پر منایا جائے نہ کہ ایک پیغام کی یاد دہانی کے لیے۔
پاکستان میں محرم کے جلوسوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ جب سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہما سب مسلمانوں کے لیے یکساں محترم ہیں تو خو ف کس سے ہے؟ یہ کالم اسی سوال کا جواب ہے۔ ایک طرف وہ نابالغ واعظ ہے جس کی ابھی تک مسیں بھی نہیں بھیگیں اور وہ منبر پر آ بیٹھاہے۔ اس کے لیے جلوس دینی سرگرمی نہیں‘ ایک گروہی امتیاز کی نشانی ہے یا مالی منفعت کا ذریعہ۔ دوسری طرف وہ شخص بیٹھا ہے جو اس جلوس کو اپنے تشخص کے لیے خطرہ سمجھ رہا ہے۔ دونوں کا دھیان سیدنا حسینؓ کی شخصیت اور کردار کی طرف نہیں‘ اپنے اپنے تشخص کی طرف ہے۔ ایک کا خیال ہے کہ جلوس برآمد ہوا تو یہ مخالف فرقے کے غلبے کا اظہار ہے۔ دوسرا اس گمان میں ہے کہ جلوس نہ نکلا تو اس کی شناخت خطرے میں پڑ جائے گی۔ یوں تصادم کی وہ صورت پیدا ہو جاتی ہے جس سے بچنے کے لیے جلوس پولیس کے پہرے میں چلتے ہیں۔
حل ایک ہی ہے۔ مسلمان اپنی شناخت کا واحد حوالہ اپنے رسول اور نبی سیدنا محمدﷺ کو بنائیں۔ اللہ نے ان کا نام ‘مسلمان‘ رکھا ہے اور انہیں آخری نبیﷺ کا امتی بنایا ہے۔ ہر نبی کے امتی اپنے اپنے دورکے مسلمان تھے اور ان کا دین اسلام تھا۔ اب قیامت تک نبیﷺ کا دور ہے‘ اس لیے آپﷺ کے سب امتی مسلمان ہیں۔ یہی ہماری شناخت ہے۔ اسی میں ہماری عزت ہے۔ اقبال نے اسی کو بیان کیا ہے کہ: ‘آبروئے ما ز نامِ مصطفی است‘۔ ختمِ نبوت پر اقبال کا اصرار اسی سبب سے ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ہم تشخص کے لیے اس نسبت کو کم اہم سمجھتے ہوئے‘ اگر کسی اور شناخت کو حوالہ بنائیں گے تو اس میں چھپے خفیہ اشارے کو نظر انداز کریں گے۔ خبردار رہیں کہ ایسی شناختوں اور گروہ بندی پہ اصرار بطور امت ہمارے لیے کتنا خطرناک ہے۔ اگر ہم اقبال کی بات کو سامنے رکھیں تو شاید جلوسوں کے لیے پولیس کے پہرے کی ضرورت نہ رہے۔ اقبال کا کہنا ہے:
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہُشیار باش
اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہُشیار باش

اپنا تبصرہ بھیجیں