ایاز امیر
بہت سی عیاشیاں ہماری بطورِ ریاست اور بطورِ معاشرہ غیر ضروری ہیں۔ کچھ تو سچ پوچھیے سراسر واہیات ہیں۔ اچھا رہن سہن ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے لیکن معاشرے میں کچھ اعتدال اور توازن ہو تب ہی چیزیں اچھی لگتی ہیں۔ اوپر نیچے کا فرق پہلے بھی تھا اور ہمیشہ سے رہا ہے لیکن جو معاشرے اپنا اعتدال کھو بیٹھیں اُن میں یہ فرق بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم اپنے پیارے ملک میں دیکھ رہے ہیں۔ یہاں کی عیاشیاں بہت حد تک بدذوق ہو چکی ہیں اور جہاں غربت کی لکیر موجود ہے وہ بہت نیچے تک جا چکی ہے۔
ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کہتے ہیں کہ یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ اللہ نہ کرے کہ کوئی بھوکا سوئے حالانکہ بھوکا نہ سونے والی بات بھی سو فیصد درست نہیں۔ ایسا تو ہم سنتے رہتے ہیں کہ فلاں مقام پر کسی باپ یا ماں نے اپنے بچوں کو دنیا سے رخصت کر دیا اور پھر خود بھی اُس راہ پر چل پڑے۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیں کہ یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا دیکھا جائے تو خود عموماً خاصے خوش خوراک نظر آتے ہیں۔ اصل بات تو معاشرے کی ناہمواریوں کے بارے میں ہے اور جیسے عرض کیا یہ ناہمواری کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے‘ اس کے باوجود کہ مساوات اور عقیدت کے نعروں میں کوئی کمی نہیں آئی۔
نمایاں خرابی کہاں سے شروع ہوئی؟ میری دانست میں نام نہاد افغان جہاد نے اس معاشرے کا ستیاناس کر دیا۔ باہر سے پیسے کچھ زیادہ ہی آنے لگے جس سے کچھ لوگ بہت جلد امیر ہو گئے اور کچھ محکموں کی استداد میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ پیسے کے علاوہ جس کھلے انداز سے اُس وقت کی حکومت نے ہمارے افغان بھائیوں کو یہاں اندر آنے دیا اور یہاں بسنے اور کاروبار کرنے کی کھلی آزادی دی اُس سے ہمارے سادہ سے معاشرے میں پہلی بار خودکار ہتھیاروں کا پھیلاؤ ہونے لگا اور ساتھ ہی مہلک منشیات کا استعمال زیادہ ہو گیا۔
ہماری سادگی کا ایک مظہر یہاں کا پرانا اسلحہ ہوا کرتا تھا۔ ہمارے لوگ بارہ بور اور تھری نٹ تھری پر گزارا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں سیون ایم ایم رائفلوں کی نمائش بھی ہونے لگی لیکن بات یہاں تک ہی رہی۔ روسی ساخت کی کلاشنکوف خودکار رائفل کا شاذ و نادر ہی ہمارے ہاں کسی کو علم تھا۔
منشیات کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ یہاں بے خودی کے مارے لوگ چرس کا استعمال کرتے تھے یا افیون کا۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں ان منشیات کے باقاعدہ ٹھیکے ہوا کرتے تھے‘ جو مخصوص وقتوں پر کھلتے اور وہاں جا کر باقاعدہ سرکاری اجازت ناموں کے توسط سے ضرورت مند افراد اپنی ضرورت پوری کرتے۔ شراب کا استعمال ہوتا تھا لیکن یاد رہے کہ یہ استعمال بہت ہی محدود پیمانے پر تھا۔ بڑے شہروں میں بار اور سیلون کھلے ہوتے لیکن ان میں ایک خاص طبقہ ہی جاتا تھا۔ بڑے شہروں میں باقاعدہ دکانیں بھی تھیں لیکن ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ ان دکانوں کے باہر لمبی قطاریں نظر آئیں۔ وہاں بھی ایک مخصوص طبقے کا آنا جانا ہوتا۔ یہ تو بیڑا غرق ہو نیک ارادوں سے نافذ پابندیوں اور قوانین کا کہ جو کام محدود پیمانے اور ایک نسبتاً شریفانہ انداز سے چل رہا تھا پابندیاں لگنے کے بعد اُس کا پھیلاؤ زیرزمین پھیلتا گیا۔ چرس اور افیون پر پابندی لگی اور افغان آمد کے بعد شہروں میں ہیروئن کا کاروبار شروع ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ موذی وبا ایسی پھیلی کہ اس کے اثرات سارے معاشرے میں محسوس ہونے لگے۔ جس دوسری چیز کا ذکر کیا ہے اس پر بظاہر پابندیاں لگ گئیں لیکن اصل میں کاروبار زیر زمین چلا گیا اور جنہیں انگریزی میں بوٹ لیگر کہتے ہیں اُن کے ہاتھوں چڑھ گیا۔ انسانی فطرت بھی کچھ ایسی ہے کہ جس چیز سے منع کیا جائے اُس کی طرف دل زیادہ راغب ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا کہ جو ڈیمانڈ کم ہونی چاہیے تھی اُسے یوں سمجھیے آگ لگ گئی۔ جو استعمال تھوڑا ہوتا تھا وہ بڑھتا چلا گیا اور یہ بھی پھر ہوا کہ اصلی اور نقلی کا فرق نہ رہا۔
یہ چیزیں تو ہوئیں لیکن پھر بھی دولت کی ریل پیل محدود دائروں میں رہی۔ اگر اسلام آباد کو ایک پیمانے کے طور پر لیا جائے تو افغان جہاد کے شروع ہونے سے اس کے ختم ہونے تک پاکستان کا دارالحکومت نسبتاً ایک چھوٹا سا شہر ہی رہا۔ سب کچھ تبدیل ہونے لگا تو مشرف دور میں جب ایک بار پھر امریکہ سے ڈالر آنے لگے اور اس سارے پیسے کا ایک بہت بڑا حصہ رئیل اسٹیٹ اور کنزیومر فنانس میں گیا۔ 1999-2000ء تک پاکستانی سڑکوں پر اتنی گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں۔ یہ جو ٹُوڈی گاڑی ہے اُس زمانے میں ایک سٹیٹس سمبل سمجھی جاتی تھی۔ بینکوں میں پیسہ آنے لگا تو ہر بینک میں خاص میز سجائے گئے جن پر دھڑا دھڑ موٹر گاڑیوں کیلئے قرضے یا لیز کا اہتمام ہوتا۔ پندرہ فیصد ڈاؤن پیمنٹ سے ٹُو ڈی گاڑی مل جاتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پاکستانی سڑکیں گاڑیوں سے بھرنے لگیں اور جنرل مشرف کے جو وزیراعظم تھے شوکت عزیز اُنہوں نے جنرل صاحب کو معیشت کا سبق پڑھایا کہ دیکھیں سر یہ تو ترقی کی علامات ہیں۔ اور جنرل صاحب بھی پھولے نہ سمائے‘ دولت کی اس نمائش کو ترقی اور اپنی حکیمانہ سوچ کی نشانی سمجھا۔ موٹر کاریں آئیں تو سڑکیں بھی بننے لگیں۔ اسلام آباد کو ہی پیمانہ لیں تو یہ شہر ایسے پھیلنے لگا کہ آج اس کی حدود کا تعین کرنا آسان کام نہیں رہا۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان سالوں میں جس کسی کا ہاتھ لگا اس نے کسی ہاؤسنگ سوسائٹی کا پرچار شروع کر دیا۔ آنکھیں بند کرکے لوگوں نے ان سوسائٹیوں میں انویسٹمنٹ کی۔ کئی سوسائٹیاں اچھی تھیں اور ان میں تعمیرات ہوئیں۔ ظاہر ہے فراڈ سکیمیں بھی تھیں جن میں لوگوں کا پیسہ ڈوب گیا۔ لیکن اس سارے عمل میں جو بات سب سے نمایاں ہوئی وہ یہ تھی کہ جس پیسے کو ملک کی ترقی کیلئے استعمال ہونا چاہیے تھا وہ ایسی عیاشیوں میں برباد ہوتا چلا گیا۔ آج کوئی پوچھے کہ ضیا دور میں جو باہر سے پیسہ آیا اس کا ہم نے کیا کیا تو جواب دینا مشکل ہو گا۔ یہی بات مشرف دور میں باہر کے پیسوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ کوئی چیز نہیں ہے بتانے کے لیے کہ اُس سارے پیسے سے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کیا ہوا۔ اسلام آباد کو ہی دیکھ لیں‘ فضول کی سڑکوں پر ایک دولت ہے کہ لٹا دی گئی۔
یہ ترقی کا ماڈل کوئی صحیفۂ آسمانی نہیں تھا‘ لیکن ان فضول کے کاموں میں یہ پیسے اس لیے لگے کہ ایک تو یہ پیسے ہمارے کمائے ہوئے نہیں تھے۔ ہماری محنت سے یہ پیسے ہمیں نہیں ملے تھے۔ غیروں کے مفادات تھے‘ اُن کے حصول کے لیے ہم نے ایک کردار ادا کیا اور اس کے عوض جیسے ایک وظیفے کے طور پر کچھ ملتا ہے یہ پیسے ہمارے کھاتوں میں آئے۔ جو اپنی محنت کی کمائی نہیں ہوتی وہ پھر ایسے ہی جاتی ہے۔ ایسی کمائی کی نشانیاں پھر چوڑی سڑکوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی شکل میں ہی ملتی ہیں۔ دوسری بات یہ تھی کہ ان دونوں ادوار میں یعنی ضیا دور اور مشرف دور میں حقِ حکمرانی آئینی راستوں سے ہٹا کر کہیں اور منتقل ہو گئی تھی۔ جہاں پھر اپنی مرضی چلے وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔
