ملکی مسائل کا ذمہ دار کون؟

افتخار احمد سندھو
ملکِ عزیز کو اپنے قیام سے لے کر آج تک بے شمار مسائل کا سامنا رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان مسائل کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ بدقسمتی سے ہر دوسرے دانشور یا سیاستدان کی تان عساکر پر ٹوٹتی ہے مگر انصاف سے دیکھا جائے تو ایسا ہرگز نہیں۔ تاریخ کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کیجئے اور تحقیقی نظر سے حقائق کو پڑھیے تو حقیقت کا پتا چلے گا۔ درحقیقت پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے کا ذمہ دار کوئی ایک ادارہ یا طبقہ نہیں بلکہ یہ مجموعی طور پر نو طبقات ہیں جنہوں نے وطنِ عزیز کو مسائلستان بنا دیا ہے۔ ان میں سیاستدان‘ عدلیہ‘ عساکر‘ بیورو کریسی‘ مشائخ عظام‘ علما کرام‘ جاگیردار‘ بزنس مین اور میڈیا شامل ہیں۔ انہی طبقات نے مل کر پاکستان بنایا تھا‘ یہی ہیں جو پاکستان کے وسائل سے کماحقہٗ مستفید ہوئے ہیں‘ اس کی دولت پر ہاتھ صاف کیے ہیں اور سب نے اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ یہ طبقات مل کر دسویں طبقے کا استحصال کر رہے ہیں‘ یہ دسواں طبقہ عوام ہیں۔
یہ طبقات بھانپ گئے تھے کہ انگریزوں کو برصغیر سے جانا ہو گا۔ انگریزوں نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کئی عوامل کی بنا پر کیا‘ جن میں ہندوستانی تحریک آزادی کا بڑھتا ہوا زور‘ دوسری عالمی جنگ کے باعث برطانوی وسائل پر پڑنے والا دباؤ اور اس حقیقت کا احساس کہ اب کنٹرول برقرار رکھنا تیزی سے ناقابلِ عمل اور مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے ان کا ذہن یہ تھا کہ ہندوستان متحد رہے اور یہ روس کے آگے کھڑا ہو۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ کانگریس اور نہرو تو سوشلسٹ نظریات کے حامل ہیں اس لیے کانگریس تو روس کے آگے کھڑی نہیں ہو گی بلکہ یہ روس کے ساتھ مل جائے گی تو انہوں نے کہا کہ متحدہ ہندوستان کی فوج کو اکٹھا رہنا چاہیے‘ اور پھر جب فوج اکٹھی نہ رہ سکی تو انہوں نے کہا کہ اس کا بٹوارہ ہونا چاہیے۔ یہ وہ حالات تھے جن میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اُس وقت عام آدمی کو ووٹ دینے کی اجازت نہ تھی‘ ووٹ کا حق زمین یا پھر تعلیم‘ یا عہدے کی بنیاد پر ملتا تھا لہٰذا ساری گیم ان نو طبقات کے ہاتھ میں تھی اور نیچے والا طبقہ جو عوام تھے‘ کے تو کبھی ووٹ پڑے نہ کبھی ان سے پوچھا گیا بلکہ ان کا استحصال ہوتا رہا جو اَب بھی جاری وساری ہے۔ جب یہ ملک حاصل کر لیا گیا تو ان نو طبقات نے اس کے وسائل اور اختیارات کو آپس میں تقسیم کر لیا اور اس کی ہڈیوں کا گودا تک نکال لیا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب سے وطنِ عزیز پاکستان معرض وجود میں آیا ہے مسائل ہمارے جوں کے توں ہیں‘ بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ایک کے بعد دوسر بحران سر اٹھا لیتا ہے۔ انہی طبقات کی مہربانی سے معاشی اور سیاسی بحران ہمیشہ سے اس ملک کا دردِ سر بنا ہوا ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی شعبہ ہو جو اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دے رہا ہو۔ نوح ناروی نے ٹھیک کہا تھا:
یہ راز تو کوئی راز نہیں سب اہلِ گلستاں جان گئے
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہو گا
اور شوق برائچی نے کہا تھا:
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی اُلو کافی تھا
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
ہمارے ہاں قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات کی جنگ برپا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ماحول کیسے بنا؟ اور 77 سالوں سے یہ ماحول کس طرح قائم ودائم ہے؟ در اصل ملک کے اندر یہ ماحول یہاں کے مخصوص ریاستی اداروں نے پیدا کیا ہے۔ جب پاکستان بنا تب عوام کی اکثریت غریب تھی اور چند گنے چنے خاندانوں پر مشتمل اشرافیہ تھی‘ جن میں سول وفوجی افسران‘ سیاستدان‘ مذہبی رہنما‘ بزنس مین‘ سرمایہ دار اور جاگیردار شامل تھے اور وہی سسٹم کے بنیادی اداروں پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے۔ ان طبقات کا اصل مقصد دولت کو سمیٹنا تھا تو پاکستان میں ایسا پارلیمانی طرز کا نظام لاگو کیا گیا جس کے ذریعے دولت ان طبقات کے پاس اکٹھی ہونا شروع ہو گئی ‘ اور دوسری طرف ایک طبقہ ہے جو محنت تو سب سے زیادہ کرتا ہے لیکن اس دولت میں اس کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر یعنی بہت ہی کم ہے۔ یہ دو فیصد استحصالی طبقات سسٹم پر اتھارٹی حاصل کرکے ساری دولت کو اکٹھا کرکے بغیر کسی محنت کے مالک بن بیٹھے۔ اپنی اس سرمایہ دارانہ اور مفاد پرستانہ سوچ کو عملی اور قانونی شکل دینے کیلئے یہی طبقات ریاست پر قابض ہیں؛ چنانچہ پارلیمنٹ یعنی مقننہ جو قانون سازی کرتی ہے‘ انتظامیہ یعنی سول بیورو کریسی جو قانون کو لاگو کرتی ہے اور عدلیہ جو اس قانون کی تشریح کرتی ہے ان طبقات کے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہو گئی۔ سماج میں طبقات کے عملی اشتراک سے ریاست کا ماحول بنتا ہے اور عوام اسی ماحول میں پلتے ہیں۔ اب اس نظام کی اصل جڑ سرمایہ پرستانہ فلسفہ ہے‘ مطلب یہ ہے کہ ملک کے بنیادی مسائل اسی سرمایہ پرستانہ سوچ کی وجہ سے ہیں‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قصور عوام کا نہیں ان طبقات کی منفی اور مفاد پرستانہ سوچ کا ہے۔ عوام تبھی ٹھیک ہو سکتے ہیں جب ماحول ٹھیک ہو اور ماحول سسٹم کے کنٹرول میں ہے‘ اس لیے عوام کو ٹھیک کرنے کیلئے نظام کا درست ہونا ضروری ہے ورنہ جتنا مرضی آپ اصلاحی کام کر لیں اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام مسائل کو ہم سائنٹفک انداز میں سمجھ کر حل کریں تو کوئی نتیجہ نکلے گا۔ سائنس کے مطابق کسی مسئلے کے حل کیلئے اس کی وجوہات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر مسئلے کی جڑ تک آپ پہنچ جائیں تو سمجھیں کہ آپ نے 50 فیصد مسئلہ حل کر لیا۔ اس کو سمجھنے کے بعد آپ اس کیلئے مناسب پلاننگ کر کے اس کا مستقل حل کر سکتے ہیں۔ اس سسٹم کے اندر رہ کر سسٹم کو درست نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس نظام میں حکومت میں وہی شخص آ سکتا ہے جس کے تعلقات مقتدر طبقے سے ہوں۔ پاکستان کی77سالہ تاریخ میں یہ بات واضح ہے کہ حکمران طبقہ عوام میں سے نہیں ہوتا‘ جبکہ مصیبتوں یا طوفانوں‘ زلزلے یا سیلاب میں نقصان ہمیشہ عوام نے اٹھایا ہے۔ ہمارے ملک میں آٹھ چیزیں عوام کیلئے انتہائی مہنگی ہیں‘ ان میں بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ گھر‘ گاڑی‘ تعلیم‘ علاج اور سفرشامل ہیں۔ مگر یہ آٹھ چیزیں ملک کے حکمرانوں‘ عدلیہ اور بیورو کریٹس کیلئے بالکل فری یا برائے نام قیمت پر دستیاب ہیں‘ جبکہ عوام کیلئے بنیادی ضرورت کی چیزوں مثلاً آٹا‘ گھی‘ چینی اور دال سبزی کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ غریب آدمی کو تو دو وقت کی روٹی کیلئے بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور حکمران طبقات پاکستان کے وسائل پر موج مستی کر رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں کچھ لوگ ادارہ جاتی اصلاح کی بات کرتے ہیں کہ اگر تعلیم کا ادارہ ٹھیک کر لیا جائے تو معاملات صحیح ہو جائیں گے‘ پولیس سسٹم کو درست کر لیا جائے یا عدلیہ صحیح ہو جائے تو معاشرے اور ملک کا نظام ٹھیک ہو جائے گا وغیرہ‘ مگر یہ سوچ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ یہ مسائل تب تک جاری رہیں گے جب تک مذکورہ نو طبقے ذاتی مفاد کے بجائے قومی اور عوامی مفاد کو ترجیح نہیں دیں گے‘ اور جب تک نظامِ حکومت کو درست نہ کر لیا جائے‘جس کی وجہ سے یہ نو طبقات اس ملک کے وسائل پر قابض ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں