ڈوگر ڈاکٹر کی ’’حکیمانہ باتیں‘‘

مجیب الرحمٰن شامی
ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر سے تعارف کہیے یا تعلق‘ دہائیوں کو محیط ہے۔ وہ طالب علم تھے جب ماہنامہ ”قومی ڈائجسٹ‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ ابلاغیات میں ایم اے کیا‘ پھر سرکاری ملازمت نے ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی۔ مقابلے کے امتحان میں سرخرو ہو کر پنجاب کے محکمہ تعلقاتِ عامہ سے ناتا جوڑا۔ ترقی کرتے کرتے ڈائریکٹر جنرل بنے‘ کئی حکومتوں کو بنتے بگڑتے دیکھا بلکہ یہ کہیے تو بھی غلط نہیں ہو گا کہ حسبِ توفیق اپنا حصہ بھی ڈالا۔ پی ایچ ڈی کی‘ انگریزی سے اردو ترجمے میں کمال حاصل کیا۔ کالم نگاری میں نام بنایا‘ تحقیق و جستجو کی دنیا میں بھی تانک جھانک کی‘ ایک نہیں کئی کتابیں لکھ ڈالیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک کو اپنا مداح بنا لیا۔ روزنامہ ”وفاق‘‘ کے مالک و مدیر جناب مصطفی صادق کے دل میں اس طرح گھر بنایا کہ انہوں نے اپنی عزت کو ان کی عزت بنا دیا۔ میرے بہترین دوستوں اور مربیوں میں نمایاں مصطفی صادق مرحوم معاملہ فہم اور دور اندیش ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ڈوگر بھی تھے۔ انہوں نے جب ایک ڈوگر نوجوان کو اُڑان بھرتے پایا تو اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان کی دختر بلند اختر یوں ٹھہریں کہ بڑے باپ کیساتھ ساتھ ایک اولوالعزم شوہر بھی نصیب ہو گیا۔ بعد ازاں دھواں دار اینکر صابر شاکر ان کے ہم زلف بنے‘ لیکن ہمارے ڈوگر صاحب کہیں زیادہ صابر و شاکر ثابت ہوئے۔ استاد کے طور پر بھی نام کمایا بلکہ اب تک کما رہے ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے اور میڈیا سے وابستہ ہونے کی خواہش پالنے والوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔
ایک طالب علم سے لے کر ایک اعلیٰ سرکاری افسر اور پھر ایک بڑے مصنف اور محقق کے طور پر جناب ڈوگر نے جو بھی حاصل کیا اپنی ریاضت اور محنت سے کیا۔ لوگوں کے چہرے پڑھتے پڑھاتے اور اہلِ اقتدار کی حرکات و سکنات سے لطف اٹھاتے اٹھاتے انہیں علمِ دست شناسی نے بھی اپنی طرف راغب کر لیا۔ وہ ایک ماہر دست شناس کے طور پر بھی سامنے آتے چلے گئے۔ ہاتھ دکھانے سے تو گریزاں رہے لیکن بڑے بڑوں کے ہاتھ دیکھ کر اُنہیں حیران کرتے رہے۔ اب وہ بی بی مریم نواز کے ہاتھوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ اسلم ڈوگر جو کچھ بھی بنے اور جیسے بھی آگے بڑھے‘ میری نظروں میں رہے بلکہ یہ کہیے دِل میں جم کر بیٹھے رہے۔ اول روز سے انہوں نے اس میں جو جگہ بنائی تھی وہ جوں کی توں ہے۔ انہوں نے سفارش کو ترقی کا زینہ بنایا نہ اپنی اولاد کو اس طرف راغب ہونے دیا‘ ان کے بیٹے بھی اعلیٰ مقامات پر اپنی محنت اور صلاحیت سے پہنچے۔ ڈوگر صاحب کا پورا گھرانہ ان کی طرح مسرور و مطمئن ہے۔ وہ سب کچھ مل چکا ہے جس کی تمنا کی جا سکتی ہے؎
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
انہوں نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا‘ میری اُمیدوں پر پورا اُترے اور میں نے بھی کوشش کی ہے کہ ان کی توقعات کو ٹھیس نہ پہنچاؤں۔ اس کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہم نے کبھی ایک دوسرے سے ایسی توقعات وابستہ نہیں کیں کہ جو ایک دوسرے کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیں۔
جنابِ ڈوگر نے پنجاب کے کئی وزرائے اعلیٰ کو بھگتا اور بھگتایا‘ میاں منظور احمد وٹو اور چودھری پرویز الٰہی کی قربت نصیب ہوئی۔ شہباز شریف کو بھی محوِ پرواز دیکھا۔ اس حوالے سے وہ اپنی یاد داشتوں کو قلم بند کریں گے تو کئی دلچسپ گوشے سامنے آئیں گے۔ ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر نے جہاں بہت کچھ لکھا ہے‘ وہاں اپنے تجربات‘ مشاہدات اور مطالعے کا نچوڑ چند الفاظ میں بیان کرنے کا شوق بھی پورا کیا ہے۔ ہمارے دور کے اہلِ دانش میں جناب واصف علی واصف اور اشفاق احمد خان اس کی نمایاں مثال ہیں کہ ان کے ”اقوالِ زریں‘‘ کئی کتابوں میں محفوظ ہو کر پڑھنے والوں کو آسودہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم ڈوگر بھی اس راستے پر چلے ہیں اور اسے روشن تر کرتے چلے گئے ہیں۔ کردار کے اعتبار سے تو وہ ”بابو‘‘ بن کر بھی ”بابے‘‘ ہی رہے تھے۔ آہستہ آہستہ ”گفتار‘‘ کے بابے بھی بن گئے۔ ان کے ”اقوالِ زریں‘‘ کا مجموعہ ”تیسرا رُخ‘‘ کے زیر عنوان سنگ میل پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول: ”زندگی ایک سفر ہے‘ اس سفر میں خوشیوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے اور غم بھی شریکِ سفر رہتے ہیں۔ انسان کی زندگی کا ایک مقصد سیکھنا ہے۔ وہ خوشیوں سے سیکھتا ہے اور غم بھی اس پر رازِ حیات فاش کر رہے ہوتے ہیں‘‘۔ ان کا کہنا ہے: زندگی سے میں نے جو کچھ سیکھا اس سے آپ کی ملاقات اس کتاب میں ہو سکتی ہے۔ یہ میری خود نوشت کے درس ہیں جو میں نے تجربے سے سیکھے‘ مشاہدے سے حاصل کیے یا مطالعے نے اس منزل پر پہنچایا۔ بعض جگہوں پر ایک جملے میں وہ کچھ ادا ہوا ہے جو میں نے برسوں میں سیکھا اور بعض اوقات غیب سے آنے والے مضامین کا بھی گمان گزرتا ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کے تجربے اور سوچ سے بھرپور استفادے کے لیے آپ کو ان کی کتاب بار بار پڑھنا پڑھے گی‘ محدود سا مطالعہ میرے ساتھ مل کر کر لیجیے۔
٭جب کسی دوسرے کی گردن کا معاملہ ہو تو یہ کہنا آسان ہوتا ہے کہ یہ گردن کٹ تو سکتی ہے جھک نہیں سکتی۔٭ اکثر لوگ سب کچھ کرنے کی خواہش میں زندگی میں کچھ بھی نہیں کر پاتے۔٭ سیب کتنی چھوٹی چیز ہے مگر ایک سیب نے نیوٹن کے سر پرگر کر پوری دنیا میں نئے تجربات کا زلزلہ برپا کر دیا‘ چھوٹی چیزیں بھی انسانی زندگی کو غیرمعمولی طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔٭دنیا میں جس شخص کو مشورہ کرنے سے الرجی ہو‘ وہ اکثر کامیابی سے الرجی کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
٭ بڑا اختیار چھوٹے دماغ کو خود کش بمبار بنا دیتا ہے۔٭تکبر کسی بھی انسان کی ذلت سے ملاقات کرا سکتا ہے۔٭ عبادت دل کو سخت کر دے‘ لہجے کو تلخ کر دے تو آپ راہِ راست پر نہیں ہیں۔ ٭شک کسی بھی انسان کی زندگی کو جہنم بنا سکتا ہے۔٭دانش سے دماغ چلتا ہے اور حماقت سے زبان۔٭انسانی زندگی میں ”لوگ کیا کہتے ہیں‘‘ کا خوف سب سے بڑا خوف ہے۔
٭اگر لوگ اصلاح کے شوق میں دوسروں کے معاملات میں دخل دینا بند کر دیں تو دنیا بہت بہتر ہو سکتی ہے۔٭ میڈیا اگر غیر ذمہ دار ہو تو اپنی آزادی بھی کھو دے گا۔٭ ایک دفعہ کا ذکر ہے‘ خبر کا درست ہونا بھی ضروری ہوتا تھا‘ آج ہر چٹ پٹی افواہ خبر ہونے پر بضد ہے۔
٭ آزادیٔ اظہار کو ”آزادیٔ‘‘ آزار بنانے والے آزادیٔ اظہار کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔٭ ایٹم بم کی تباہ کاری کا تجربہ جاپان میں کیا گیا تھا‘ سوشل میڈیا کے نئے ہتھیار سے پاکستانی ریاست اور معاشرے کو تباہ کرنے کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔٭ ضد اور ہٹ دھرمی کسی بھی عالم کو جاہل بنا سکتی ہے۔٭دماغ تو سب کو ملتا ہے مگر اسے استعمال کرنے کا آرٹ کسی کسی کو آتا ہے۔
٭ انسانوں سے توقعات وابستہ کرنے والے اکثر نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔٭ انسان دولت کے بجائے شہرت حاصل کرنے کے لیے زیادہ گھٹیا حرکات کرتا ہے۔٭تبدیلی اور معطلی کی پالیسیاں بیورو کریسی کے مورال کو تباہ کر سکتی ہیں اور سو نہیں‘ ہزار نہیں‘ لاکھ بلکہ کروڑ باتوں کی ایک بات ”قوموں کو زبردستی غلام تو بنایا جا سکتا ہے زبردستی آزاد نہیں کیا جا سکتا‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں