محمد مظہر رشید چودھری
اکتوبر 2025 تک پاکستان کی معیشت نے ایک ایسا حساس اور چیلنج بھرا مرحلہ طے کیا جس کا اثر ہر گھرانے کے بجٹ اور روزمرہ زندگی پر واضح طور پر محسوس کیا گیا۔ اب ہر گھرانے کے لیے روزانہ کی روٹی، پانی، توانائی اور دیگر بنیادی ضروریات حاصل کرنا ایک حقیقی امتحان بن گیا، جو پہلے صرف اعداد و شمار اور رپورٹس میں محسوس ہوتا تھا۔اس عرصے میں بجلی، پٹرول، گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، ہر ماہ بڑھتے ہوئے بل اور محدود امدادی اقدامات نے واضح کر دیا کہ معاشی دباؤ عام شہری کے لیے ایک زندہ حقیقت ہے۔ بجلی کے علاوہ گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، چاہے گھریلو استعمال کے لیے ہوں یا کاروباری شعبے کے لیے، ہر فرد کے بجٹ پر گہرے اثرات ڈال رہی ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نے نہ صرف سفر کے اخراجات بڑھا دیے بلکہ اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا، کیونکہ یہ روزمرہ زندگی کے بنیادی اجزاء کی نقل و حمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔روزمرہ زندگی میں مہنگائی کے اثرات صرف توانائی اور خوراک تک محدود نہیں رہے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی مالی دباؤ نمایاں رہا۔ پرائیویٹ سکولز اور کالجز کی فیسیں بڑھیں، تعلیمی سہولیات محدود ہو گئیں، اور معیار تعلیم پر اثر پڑا۔ صحت کے شعبے میں ادویات اور اسپتال کی خدمات مہنگی ہو گئیں، جبکہ عوامی ہسپتالوں میں بنیادی سہولتیں محدود رہیں۔ متوسط اور کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے یہ سب کچھ ایک مسلسل چیلنج بن گیا، اور ہر فرد کو اپنی روزمرہ ضروریات کے لیے بجٹ میں مسلسل کمی بیشی کا سامنا کرنا پڑا۔اس دوران عام آدمی نے محسوس کیا کہ مالی دباؤ اور مہنگائی کے باوجود کچھ شعبوں میں استحکام اور ترقی کے آثار موجود ہیں، لیکن روزمرہ زندگی میں محدود ریلیف کی فراہمی نے عام شہری کی مشکلات میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں کی۔ شہریوں نے دیکھا کہ ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل اور اقتصادی بہتری زیادہ تر حکومتی منصوبہ بندی اور سیاسی نمائندگی پر منحصر ہے۔دوسری جانب انتظامی اور سرکاری شعبوں میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے بیوروکریٹس، ججز اور سرکاری اہلکاروں کے لیے ترقی، مراعات اور سہولتیں جاری رہیں، تاکہ اداروں کی کارکردگی متاثر نہ ہو۔ یہ اقدامات ادارہ جاتی استحکام کے لیے ضروری تھے، مگر عام شہری کی روزمرہ مشکلات کے سامنے یہ اقدامات نوعیت میں مختلف نظر آئے۔سانچ کے قارئین کرام! مشاہدے کے مطابق، صوبوں میں بیوروکریٹس کا جاہ و جلال اب واضح ہو چکا ہے۔ نئے اداروں کے قیام اور چند شعبوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے دعووں کے باوجود، عام شہری، خاص طور پر پھیری والے اور ریڑھی والے، زیادہ متاثر دکھائی دیے۔ روزمرہ کے چھوٹے کاروبار اور معمولی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں یہ لوگ معاشی اور انتظامی دباؤ کا سامنا کرتے ہیں، اور بعض مقامات پر بیوروکریسی اور انتظامی اہلکار اپنی سرگرمیوں کو دکھانے کے چکر میں انہی شہریوں پر سخت گیر رویہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف عام انسانوں کے حوصلے پست کرتا ہے بلکہ معاشرتی ناہمواری اور بے چینی کو بھی بڑھاتا ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض دفاتر میں طاقت اور اختیار کے مظاہرے کے لیے عام شہریوں کی مشکلات کو نظر انداز کیا جاتا ہے، جبکہ بیوروکریسی اپنی کارکردگی کو عوام کے سامنے نمایاں کرنے کے لیے سخت اقدامات اختیار کرتی ہے۔ نتیجتاً، وہ لوگ جو روزانہ کی محنت سے اپنی روزی کماتے ہیں، وہ ادارہ جاتی مظاہروں اور طاقت کے کھیل میں محض مہرے بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ منظر صرف ایک انتظامی عمل نہیں بلکہ معاشرتی حقیقت کی عکاسی بھی کرتا ہے، جو عوامی جذبات اور زندگی کے عام مسائل پر براہِ راست اثر ڈال رہا ہے۔یہ صورتحال ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اداروں کی مضبوطی اور کارکردگی تبھی قابل ستائش ہے جب یہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہو، نہ کہ صرف اختیار اور دکھاوا دکھانے کے لیے۔ بیوروکریسی کی طاقت تبھی حقیقی اور موثر ہو سکتی ہے جب وہ عام شہری کی مشکلات کو سمجھے، ان کے مسائل کا حل کرے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے، نہ کہ صرف اپنے جاہ و جلال کے مظاہرے میں مصروف ہو۔معاشرتی اور اقتصادی دباؤ کے دوران مالیاتی شفافیت اور سرکاری وسائل کے استعمال پر عوام کی نگاہیں رہیں۔ ہر فیصلہ، ہر پالیسی اور ہر مالیاتی اقدام عوام کی زندگی پر براہِ راست اثر ڈال رہا تھا۔ شہریوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ ان کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے سیاسی شعور اور فعال نمائندگی نہایت ضروری ہیں۔روزمرہ زندگی کے ہر پہلو میں مہنگائی اور دباؤ کے اثرات نظر آئے۔ بازار میں اشیاء خورد و نوش، سبزی، دالیں، آٹا اور گوشت کی قیمتیں بڑھتی رہیں، نقل و حمل مہنگی ہوئی، اور ہر گھرانے کو اپنے محدود بجٹ میں توازن پیدا کرنے کے لیے روزانہ فیصلے کرنے پڑے۔ غریب اور متوسط طبقے کے لیے روزمرہ علاج اور ادویات کا خرچ بھی بڑھ گیا۔ ہر عام شہری کے لیے زندگی ایک مسلسل محنت بن گئی، جس میں صرف گزارا کرنا اور بنیادی ضروریات پوری کرنا ہی اہم رہ گیا۔ان سب مشکلات کے باوجود، ضمنی انتخابات کے نتائج نے ایک دلچسپ پہلو واضح کیا۔ عوام نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور سیاسی نمائندگی کے لیے اپنا ووٹ استعمال کیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام کا سیاسی شعور برقرار ہے اور وہ اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے موقف کو واضح کر سکتے ہیں، چاہے روزمرہ زندگی میں مہنگائی اور اقتصادی دباؤ موجود ہو۔ ضمنی انتخابات میں کامیابی یا شکست کے پیچھے متعدد عوامل کام کرتے ہیں، جن میں سیاسی قیادت، حکومتی اقدامات اور عوام کی توقعات شامل ہیں۔یہ دور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مہنگائی، مالی دباؤ اور روزمرہ چیلنجز کے باوجود عوام کی رائے اور ووٹ سیاسی عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عوام کی توقعات اور حکومتی کارکردگی کے درمیان تعلق کو سمجھنا ہر سیاستدان، تجزیہ کار اور شہری کے لیے ضروری ہے۔ معاشی دباؤ صرف ایک پہلو ہے، جبکہ عوام کی سیاسی شمولیت اور ووٹ کا اثر ایک اور اہم اور فیصلہ کن پہلو ہے۔آنے والے دنوں میں ضروری ہے کہ حکومت اور عوام دونوں متوازن اور شفاف پالیسیوں کے ذریعے عوام کی بنیادی ضروریات کو بہتر کریں، مہنگائی اور مالی دباؤ کو کم کریں، اور سیاسی عمل میں شفافیت اور ذمہ داری کو برقرار رکھیں۔ عوام کی رائے، ووٹ اور توقعات کسی بھی جمہوری نظام کی بنیاد ہیں، اور ان کا احترام ہر شہری، سیاسی قیادت اور حکومتی اداروں کے لیے لازم ہے

