سر پرست

تحریر:شاہد شکیل
دُنیا کے ہر والدین کے لئے اُن کا بچہ زِندگی کی سب سے قیمتی مَتاع ہوتا ہے، ہر بچہ اپنی فِطرت میں معصوم، پاک اور نیک ہوتا ہے مگر اُس کی دُرست پَر ورِش والدین کے لئے ایک نِہایت نازُک، صبر آزما اور ذِمہ دارانہ عمل ہے، تربیت کے اِس سفر میں والدین کو طرح طرح کے تجربات اور چیلینز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی بچے ضِد کرتے ہیں، کبھی بات نہیں مانتے تو کبھی اپنی معصوم خواہشات میں والدین کو آزما دیتے ہیں، ایسے میں اکثر والدین دِل ہی دل میں تھک کر خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں،لیکن یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جب صبر، تحمل اور محبت آزمائش ہوتی ہے۔اصل کامیاب والدین وہی ہیں جوغصے کے بجائے شفقت کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں اور تنبیہ کے بجائے اِخلاق و نرمی سے سمجھانے کا راستہ اِختیار کرتے ہیں،کیونکہ مار پیٹ سے بچے ڈرتے ضرور ہیں مگر سیکھتے نہیں،محبت سے دی گئی نصیحت اُن کے دِلوں میں ہمیشہ کے لئے نقش ہو جاتی ہے۔مغربی معاشرے میں بچوں کی پرورِش اور تربیت ایک منظم اور باقاعدہ نِظام کے تحت کی جاتی ہے وہاں تربیت کا ہر مر حلہ وقت اور نظم و ضبط کے اُصولوں سے جُڑا ہوا ہے،کھانے،کھیلنے،پڑھنے حتیٰ کہ سونے جاگنے تک ہر عمل کے لئے ایک مقررہ وقت متعین ہوتا ہے،بظاہر یہ طرزِزِندگی ایک مشینی نِظام کی جھلک پیش کرتا ہے مگر در حقیقت اِسی ترتیب و تنظیم کے اندر وہ توازن پِنہاں ہے جو بچوں کو نَظم و ضبط،وقت کی قدر اور ذمہ داری کا اِحساس سکھاتا ہے۔یوں یہ بچے محض وقت کے پابند نہیں بنتے بلکہ اپنے والدین کے عملی تعاون سے ایک باہمی اِحترام اور ہم آہنگی کی فِضا میں پَروان چڑھتے ہیں،یہی نِظام رفتہ رفتہ اُن کی شخصیت میں اِستحکام، خود اِعتمادی اور زِندگی کے اُصولوں کی پاسداری کرتا ہے،وہ اوصاف جن کی بنیاد پر ایک مُہذب معاشرہ وجود میں آتا ہے۔جبکہ پاکستان اور دِیگر ایشائی ممالک میں عمومی طور پر وقت کی قدر کا شعور کم پایا جاتا ہے،یہاں زِندگی کو اکثر بے رَبط اور غیر مُنظم انداز میں گزارنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

اِ س رَوِش کا اثر براہ ِ راست گھریلو فضا پر پڑتا ہے جہاں والدین اور بچوں کے درمیان آئے دن اِختلافات اور چپقلش جنم لیتی ہے، والدین اکثر شِکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ آج کے بچے نہ سننے کو تیار ہیں، نہ سمجھنے کو، وہ ہر بات اپنی مرضی سے منوانا چاہتے ہیں اور اگر کوئی بات اُن کی خواہش کے خِلاف ہو جائے تو فوراََ ضِد اور نافرمانی پر اُتر آتے ہیں، جس کے نتیجے میں والدین دِل ہی دل میں شِکوہ کُناں رہتے ہیں کہ آج کے دور کے بچوں کو نہ بڑوں کالِحاظ ہے،نہ اُن کے جذبات کا۔والدین کو یہ سمجھنا چاہئے کہ بچپن زِندگی کا وہ نازُک مگر پُر اثر دور ہوتا ہے جس میں بچہ ہر بات سیکھنے، محسوس کرنے اور اپنے گِردوپیش سے اثر لینے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ وہ عمر ہوتی ہے جہاں شعور ابھی ابتدائی منازِل میں ہوتا ہے، لہٰذابچے والدین کے رویوں سے نتائج اَخذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے،وہ صرف محسوس کرتے ہیں، محبت ہو یا غصہ، شفقت ہو یا سختی۔اکثر ماؤں کا یہ گمان ہوتا ہے کہ سختی،ڈانٹ ڈپٹ یا مار پیٹ سے وہ بچے کی ضِد یا شرارت پر قابو پا لیں گی مگر درحقیقت یہ سوچ ایک فریب ہے،بچہ مارنے سے ڈر ضرور جاتا ہے،لیکن سیکھتا نہیں۔عارضی طور پر خاموش ہو جانے والا بچہ اندر ہی اندر ضِد،خوف اور بے اِعتمادی کے بیج پالنے لگتا ہے،نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ وہی بچہ ماں کی نگاہ میں “ڈھیٹ”،”نافرمان”یا ” ضِدی” بن جاتا ہے، حالانکہ اصل میں وہ محض اپنی فِطری بے بسی کا اِظہار کر رہا ہوتا ہے۔مغربی ممالک کے ماہرین ِ نفسیات بچوں کی تربیت اور شخصیت سازی میں چند بنیادی اُصولوں کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں،اُن کے نزدیک کامیاب اِنسان وہی ہے جو ٹیم وَرک کے جذبے کو سمجھے، تخلیقی صلاحیتوں کو بَروئے کار لائے،آزاد سوچ و عمل کا مُظاہرہ کرے اور سب سے بڑھ کر دو طَرفہ تعاون کی روح کو اپنے رویوں میں شامِل کرے اِن اُصولوں کے تحت تربیت پانے والے بچے نہ صرف خود اِعتماد بنتے ہیں بلکہ دوسروں کے جذبات اور آزادی کا اِحترام کرنا بھی سیکھتے ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر مغربی معاشرہ اپنی اِجتماعی کامیابی کی عِمارت کھڑی کئے ہوئے ہے۔بچوں کی تربیت میں ماں اور باپ دونوں کی یکساں شمولیت ناگزیر ہے،تربیت کا یہ سفر صرف رِہنمائی نہیں بلکہ ایک باہمی رفاقت ہے جس میں والدین اپنے بچوں کے ساتھ قدم بہ قدم چلتے ہیں۔آزاد سوچ اور عمل کا احترام کرتے ہوئے اگر والدین بچوں کی حوصلہ افزائی اور دِ ل جوئی جاری رکھیں تو یہ اِعتماد اور محبت کا ایسا رِشتہ قائم کرتا ہے جو بچے کی شخصیت کو مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے، دو طرفہ تعاون سے مُراد یہ ہے کہ والدین محض ہدایت دینے والے نہ ہوں بلکہ بچوں کے احساسات اور خیالات کو بھی سننے والے ہوں، جب بچے محسوس کرتے ہیں کہ اُن کی بات سُنی اورسمجھی جا رہی ہے تو وہ اپنے آپ کو تنہا نہیں پاتے،یہی اِحساسِ تعلق اُن کے ذہن اور دِل پر مثبت اثر ڈال کر اُن کے مُستقبل کی راہیں روشن کرتا ہے۔ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے بچوں کی تربیت اِس انداز میں کی جائے کہ اُن کی شخصی آزادی مُتاثر نہ ہو۔والدین اگر ہمیشہ اپنی رائے کو فوقیت دینے کے بجائے بچے کی بات کو بھی اہمیت دیں تو یہی طرزِ عمل اُس کے اِعتماد، شعور اور فِکری پختگی کی بنیاد بن جاتا ہے، بچے کے لئے ہر فیصلہ خود کرنا والدین کا فریضہ نہیں بلکہ صحیح اور غلط میں تمیز کرنا،سکھانا اصل تربیت ہے،اگر والدین بچے کو سوچنے،پرکھنے اور اِنتخاب کرنے کا حوصلہ دیں تو وہ وقت آنے پر اپنی زِندگی کے فیصلے خود اِعتماد کے ساتھ کرنے کے قابِل ہو جاتا ہے۔در حقیقت،تربیت کا مقصد یہ نہیں کہ بچے کو ہر لمحہ رِہنمائی کی چھتری تلے رکھا جائے بلکہ یہ ہے کہ اُسے اِتنا مضبوط بنا دیا جائے کہ وہ خود روشنی اور اندھیرے میں فرق پہچان سکے۔والدین کا فرض یہ ہے کہ وہ بچے کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پہچانیں، اُنہیں نکھارنے کے مواقع فراہم کریں اور اُس کے اندر وہ شعور بیدار کریں جو اُسے ایک متوازن اور با اِعتماد اِنسان بنا سکے۔بحیثیت والدین ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ بچہ محض ایک روبوٹ ہے جو صرف ہمارے اِشاروں پر چلے اور ہر بات میں ہماری مرضی کا تابع رہے، ایسی تربیت جہاں بچے کی شخصی آزادی کو مجروح کیا جائے وہاں تخلیقی سوچ اور خود اِعتمادی دَم توڑ دیتی ہے، اصل مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنے بچے کو ایک پُر اِعتماد، باشعور اور مضبوط ارادے والا اِنسان بنائیں، جو خود فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اپنی ذِمہ داریوں کو سمجھ کر ادا کرے، جب والدین اپنے بچوں کو سوچنے، سمجھنے اور اپنی رائے دینے کا موقع دیتے ہیں تو اُن کے اندر احساسِ خودی اور قوت ِ فیصلہ پروان چڑھتی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو بچے کو نہ صرف والدین کا فرماں بردار اور وفا دار بناتا ہے بلکہ ایک مکمل اور متوازن شخصیت کے طور پر اُبھارتا ہے جو معاشرے میں اپنا کِردار بخوبی نِبھا سکے اور دوسروں کے لئے ایک مثبت مِثال بنے۔
زور زَبردستی سے بچے بظاہِر فرماں بردار تو بن جاتے ہیں مگر اُن کے اندر کی دُنیاسکڑنے لگتی ہے، خود اِعتمادی کی کمی اُنہیں خاموش اِطاعت پر مجبور کر دیتی ہے اور یہی خاموشی وقت گزرنے کے ساتھ یا تو بغاوَت میں بدل جاتی ہے یا معاشرتی دباؤ سے نِجات کی راہ اِختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔بچوں کی تربیت میں ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ وقتی اثر تو ڈال سکتی ہے مگر یہ اثر کبھی دیرپا نہیں ہوتا،سختی سے بچے سیکھتے نہیں صرف ڈرتے ہیں، اصل تربیت اُس وقت ممکن ہے جب والدین بچوں کو عزتِ نفس کے ساتھ سمجھائیں، اگر آپ بچے کی غلطی پر طنز کرنے یا طعنہ دینے کے بجائے واضح اور نرمی سے یہ بتا دیں کہ آپ دراصل کیا چاہتے ہیں تو وہ نہ صرف آپ کی بات سمجھنے کی کوشش کرے گا بلکہ اُس پر غور بھی کرے گا۔بچے فِطری طور پر عمل کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں،اُن کے اندر سیکھنے، کرنے اور دریافت کرنے کی ایک پوشیدہ توانائی ہوتی ہے،بس اُنہیں دُرست رِہنمائی اور محبت بھری سِمت کی ضرورت ہو تی ہے لیکن یہ توقع رکھنا غیر فطری ہے کہ آپ بچے کو ڈانٹیں،ماریں، طعنے دیں یا اُس کی تذلیل کریں اور پھر بھی وہ آپ کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے عمل کرے۔ محبت اور تربیت کبھی زبر دستی سے نہیں جیتی جا سکتیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچہ آپ کی بات توجہ سے سُنے تو پہلے اُسے اِحترام اور نرمی کا اِحساس دِلائیں، جب آپ اِخلاق، پیار اور شفقت کے لہجے میں یہ کہیں کہ، بیٹا ہمیں آپ سے ذَرا سی توجہ چاہئے،” کیا آپ ہماری بات سنیں گے “؟ تو یہ جُملہ ایک معجزے کی مانند اثر کرتا ہے، بچوں کے ساتھ ایسا محبت بھرا اور مثبت روّیہ اِختیار کریں کہ آپ کو اُن سے اپنی بات منوانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو بلکہ وہ خود دِل سے آپ کا کہنا مانیں، بچے محبت سے جلدی متأثر ہوتے ہیں نہ کہ حُکم یا ڈانٹ سے،اِ س لئے اُن پر رُعب جمانے یا غیر ضروری نصیحتوں کے بجائے اگر آپ نرمی سے اور اپنائیت کے ساتھ بات کریں تو وہ نہ صرف سُنیں گے بلکہ خوشی سے عمل بھی کریں گے، جب آپ کِسی بات کے لئے حکم دینے کے بجائے پیار سے درخواست کرتے ہیں تو بچہ آپ کی بات کو ایک حکم نہیں بلکہ ایک اعتماد سمجھتا ہے،اور جب وہ آپ کی توقع کے مطابق عمل کرے تو اُس کی حوصلہ افزائی ضرور کریں کیونکہ یہی تعریف اور محبت اُس کے اندر یہ اِحساس پیدا کرتی ہے کہ وہ آپ کے اِعتماد پر پورا اُتر رہا ہے۔ حال ہی میں بچوں کی نفسیات اور والدین کے فرائض پر ایک نہایت مفید اور بصیرت افروز کِتاب کی نمائش ہوئی جس میں ماہرین ِتعلیم و نفسیات نے تربیت ِ اولاد کے چند ایسے زرّین اُصول پیش کئے جن پر عمل کر کے والدین نہ صرف اپنے بچوں سے بہتر تعاون اور ہم آہنگی حاصِل کر سکتے ہیں بلکہ اُنہیں ایک خود اِعتماد، متوازن اور مثبت شخصیت کے طور پر بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔
نمبرایک۔بچوں سے تعاون کریں اور تعاون حاصِل کریں، اُنہیں محض حُکم نہ دیں،نہ اُن پر حُکم چلانے کی کوشش کریں، جب والدین بچوں کے ساتھ شریکِ عمل بن جاتے ہیں تو وہ اِطاعَت کو بوجھ نہیں بلکہ اِعتماد سمجھتے ہیں۔ نمبر دو۔ بچوں کو پیار، توجہ اور اِحترام کے ساتھ سُنیں، بیچ میں نہ ٹوکیں بلکہ اُنہیں اپنی بات مکمل کرنے دیں، اکثر اوقات بچوں کو حل سے زیادہ کِسی سُننے والے کی ضرورت ہوتی ہے، اُن کے مسائل کو سمجھنے کے بعد ہی رِہنمائی کریں، بغیر غور کئے کوئی فیصلہ نہ سنائیں۔ نمبر تین۔بچوں سے تعاون حاصِل کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ آپ اُنہیں دلائل اور مِثالوں کے ذریعے سمجھائیں، غصے یا جھنجھلاہٹ میں سزا دینے کے بجائے اگر آپ بات کی منطق واضح کردیں تو بچہ خود بخود درُست سِمت اِختیار کر لیتا ہے۔نمبر چار۔والدین بچوں کے لئے صرف سر پرست نہیں بلکہ رِہنما اور قائد کی حیثیت رکھتے ہیں، ایک سچے لیڈر کی طرح اُن کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو نرمی، بصیرت اور محبت کے ساتھ درُست راہ دکھائیں نہ کہ اپنی خواہشات اُن پر مُسلط کریں۔نمبر پانچ۔اگر کبھی بچے کو دُرستگی کی ضرورت محسوس ہو تو مار پیٹ سے گریز کریں، اِس کے بجائے اُنہیں محدود وقت یا واضح اَلٹی میٹم دیں تاکہ وہ اپنی غلطی کا اِدراک کر سکیں،پہلے اُنہیں متنبہ کریں کہ اگر مقررہ وقت میں اصلاح نہ ہوئی تو سزا دی جائے گی، اِس طرح بچہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر خود بہتری کی کوشش کرتا ہے،یاد رہے جب بچہ والدین کے قابو سے باہر نظر آئے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ضِدی یا نافرمان ہو گیا ہے بلکہ اِس کے پیچھے اکثر یہ حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے کہ کہیں نہ کہیں اُس کی بنیادی ضروریات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ اپنے بچے کا موازنہ کِسی دوسرے بچے سے ہرگِز نہ کریں، ہر بچہ قدرتی طور پر منفرد ہوتا ہے اُس کی صلاحیتیں،رحجانات اور فِطری رفتار دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔آج کے ترقی یافتہ دور میں جدید سہولتوں سے محروم رکھنا دانائی نہیں بلکہ کوتاہ نظری ہے عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو تمام ضروری سہولتیں فراہم کریں مگر ساتھ ہی اُن کے استعمال، مشاغل اور سرگرمیوں پر بھر پور نِگرانی بھی رکھیں۔بِلا شبہ کمپیوٹر اور سمارٹ فونز دورِحاضر کی عظیم ایجادات ہیں مگر اِن کے استعمال کے بھی مثبت اور منفی پہلو ہیں،
سمارٹ فونز اور دیگر الیکٹرانک آلات کے استعمال سے گریز یا محدود اجازت دی جائے، ان کا بے جا اور حد سے زیادہ استعمال نہ صرف تعلیم بلکہ صحت کو بھی بُری طرح متأثر کرتا ہے۔والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کی دلچسپیوں کو صرف ٹیکنالوجی تک محدود نہ ہونے دیں بلکہ مطالعہ، کھیل، باغبانی، تاریخ اور جغرافیہ جیسے مُفید مشاغِل کی طرف راغِب کریں،یہ سر گرمیاں نہ صرف اُن کے ذِہن کو متحرک رکھتی ہیں بلکہ انہیں اِخلاقی اور سماجی بُرائیوں سے محفوظ رکھنے میں بھی مددگار ثابِت ہوتی ہیں۔یوں جدید سہولتوں کے ساتھ روایتی اقدار کا توازن برقرار رکھا جا سکتا ہے اور یہی توازن ایک مضبوط، باشعور اور مہذب نسل کی بنیاد ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں