ایاز امیر
1979ء کے موسم بہار میں قائداعظم یونیورسٹی کی دو طالبات کے ساتھ اسلام آباد کے کسی کیفے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک بات کابل جانے کی چھڑی اور اگلے دو تین روز میں ہم پشاور کے جی ٹی ایس اڈے پر کابل کے ٹکٹ خرید رہے تھے۔ اُس وقت 32روپے کا ٹکٹ تھا پشاور سے کابل تک۔ کابل کا سفری راستہ بہت خوبصورت ہے اور جلال آباد کے بعد جو ایک پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے بہت ہی دلکش۔ شام کے قریب کابل پہنچے‘ کوئی بکنگ نہیں تھی‘ کوئی ہوٹلوں کا پتا نہ تھا لیکن اڈے پر ہی پوچھتے ہوئے ایک درمیانے ہوٹل میں پہنچ گئے جہاں پر ایک کمرہ بُک کر لیا۔
جوانی کے دن تھے‘ سفر کی تھکاوٹ نے ہمیں کیا کہنا تھا۔ گھومتے گھماتے ایک ریستوران کی بتیاں دیکھیں تو بھلی لگیں اور اندر قدم رکھا۔ اٹالین ریستوران تھا اور ظاہر ہے کھانا بھی اطالوی قسم کا تھا۔ اُس زمانے میں نور محمد ترکئی کی بغاوت ہو چکی تھی اور کابل پر حکومت کمیونسٹوں کی تھی۔ ظاہر ہے خواتین کے لباس پر کوئی قدغن نہ تھی اور حجاب یا دوپٹہ نام کی چیز خواتین کے سروں پر نظر نہیں آتی تھی۔ جس ریستوران میں ہم بیٹھے تھے ادھر اُدھر بڑی خوبرو دوشیزائیں اور خواتین بیٹھی تھیں۔ لیکن حیرانی اس بات پر ہوئی کہ اُنہیں گھور گھور کے کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔ خواتین اپنی گپوں میں لگی ہوئی تھیں اور جہاں مرد بیٹھے تھے اپنی گفتگو میں محو تھے۔
یہ بھی ظاہر ہے کہ سامانِ شب کے بارے میں کوئی ممانعت قسم کی چیز نہ تھی۔ اطالوی کھانے کے ساتھ مخصوص مشروب کا استعمال ہوتا ہے اور ہم نے دیکھا کہ ہر میز پر کسی نہ کسی قسم کے مشروبات موجود تھے۔ عام پاکستانی تصور یہ ہے کہ جہاں ایسا ماحول ہو وہاں غل غپاڑا اور بے تکی ایکٹنگ ضروری ہوتی ہے۔ یہ ہماری مختلف اقسام کی محرومیوں کا نتیجہ ہے۔ جیسے بھوکا آدمی ہمیشہ دعوتوں اور ضیافتوں کے خواب دیکھتا رہتا ہے پاکستان کی سوشل محرومیوں کی وجہ سے مرد حضرات کے ذہنوں پر خاص قسم کے تصورات حاوی رہتے ہیں۔ عام پاکستانی تصور کے برعکس ریستوران کا ماحول نہایت ہی شائستہ تھا۔ غل غپاڑا تو دور کی بات کوئی اونچی آواز میں بات نہیں کر رہا تھا۔ ہاں‘ چہروں پر خوشگوار تاثرات نظر آتے تھے اور قہقہے لگتے بھی تو مہذب انداز سے۔ پیسے ہمارے پاس کچھ اتنے زیادہ نہ تھے لیکن اتنے تھے کہ سامانِ شب کی طلب پوری ہوتی گئی اور جب ریستوران سے باہر قدم رکھا تو محسوس کیا کہ قدم ذرا ہلکے انداز میں اِدھر اُدھر جا رہے ہیں۔
پانچ چھ دن ہم کابل رہے لیکن کیا حسین اور یادگار وہ دن تھے۔ دن کے وقت بازارو ں میں جاتے‘ روایتی قسم کے افغان شلوار قمیص اور روایتی لباس میں زمین پر بیٹھے ٹھیلا لگائے ہوتے اور پاس سے فراک اور مغربی لباس پہنے خواتین گزرتیں اور میں قسم کھا کے کہہ سکتا ہوں کہ کسی ٹھیلے والے‘ کسی دکاندار یا راہگیر کی نظر اس طرح اُن کی طرف نہ اُٹھتی جیسا کہ ہمارے ملک میں معمول بن گیا ہے۔ وہاں کسی برقع کی قطعاً ضرورت نہ تھی لیکن یہاں کے حالات دیکھیں تو کہنا پڑتا ہے کہ بازاروں میں خواتین کیلئے برقع ضروری لباس لگتا ہے۔
دوپہر کسی سینما گھر چلے جاتے اور کوئی ہندوستانی پکچر جو کہ وہاں بہت مقبول تھیں‘ دیکھ لیتے۔ آج تو اُردو کابل میں عام ہو چکی ہے لیکن اُس زمانے میں اتنے لوگ اردو نہ بولتے تھے۔ ہمیں دَری آتی نہ تھی لہٰذا جہاں انگریزی نہ چلتی بات تھوڑی مشکل ہو جاتی لیکن کلچر وغیرہ میں زیادہ فرق نہ تھا اور گزارہ ہو ہی جاتا۔ کابل کے وسط میں وہاں کی مَنی چینجر مارکیٹ تھی۔ قدیم عمارت جس کی سیڑھیاں لکڑی کی تھیں اور دو تین منزلوں پر محیط تھی۔ پہلی منزل پر ہم گئے روپوں کو تبدیل کرنے کیلئے‘ جو پہلی دکان دیکھی وہیں اندر ہو لیے۔ روپے چینج کروائے اور شاید چونکہ ساتھ ہمارے دو خواتین تھیں تو سردار جی جو دکان کے مالک تھے‘ گفتگو میں پڑ گئے۔ اچھی خاصی بے تکلفی ہو گئی اور اُنہوں نے شام کو گھر کھانے پر بلا لیا۔ اُن کے ہاں بیٹھے ہم کرسیوں پر لیکن جوتے کمرے کے باہر اُتارے۔ مہربانی کے فرائض حسبِ دستور ادا کیے گئے‘ یعنی آتے ہی سامانِ شب کا اہتمام ہوا اور ساتھ اُس کے کابل کے کٹے ہوئے سیب۔ کابل میں ایک اور چیز نظر سے گزری کہ چھوٹے چھوٹے ریستورانوں میں بھی کھانا کسی اہتمام کے ساتھ کھایا جاتا۔ یعنی پیالے میں شوربا ہوتا تو ساتھ ہی کابلی پلاؤ اور پھر آخر میں سبز قہوہ کابلی طرز کا جو بہت ہی مزیدار ہوتا ہے اور یہاں ملنا خاصا مشکل۔ مطلب یہ کہ کھانے کا انداز مہذب دیکھا‘ یہاں جیسا نہیں کہ روٹی کھائی اور اوپر سے غٹ غٹ پانی کا ایک گلاس انڈیل لیا۔
ترکئی حکومت کا قبضہ شہروں پر تو جم چکا تھا لیکن دیہاتی علاقوں میں بغاوت شروع ہو گئی تھی۔ وہی بغاوت‘ جس نے بعد میں نام نہاد افغان جہاد کی شکل اختیار کی۔ لہٰذا یہ کوئی عجوبہ نہ تھا کہ جو دن ہم نے وہاں گزارے اُن میں دو تین بار حکومتی ریلیاں دیکھیں جن میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ نوجوان خواتین بھی شامل ہوتیں‘ مغربی لباس میں لیکن کسی ایسے ماحول کا شائبہ نہ ہوتا جو ہمارے ہاں معمول بن جاتا ہے جہاں خواتین موجود ہوں۔ کابل کا حسن پھر اپنا ہی حسن ہے اور وہ دیکھ کر ہم اَش اَش کرتے لیکن بغاوت کی شروعات کے باوجود کابل کا ماحول اُس زمانے میں صرف پُرسکون ہی نہیں دلفریب بھی تھا۔ امریکی مداخلت اور ڈالروں کی بدولت کابل آج ایک بدنما شہر بن چکا ہے۔ لیکن جس زمانے کی بات ہو رہی ہے کابل نہایت ہی خوبصورت اور پرانے طرز کا شہر تھا۔ کیا نظر بد اُس دھرتی کو لگی ہے۔ شروع کی غلطی افغانوں کی اپنی تھی۔ سردار داؤد کو کیا پڑی تھی کہ اپنے کزن شاہ ظاہر شاہ کا تختہ اُلٹاتا۔ کچھ سال تو سردار داؤد نے حکمرانی کی لیکن 1978ء میں کمیونسٹ خیالات رکھنے والے فوج اور ایئر فورس کے افسروں نے نور محمد ترکئی کی جماعت کے ساتھ مل کر بغاوت کی اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اُس بغاوت میں سردار داؤد مارا گیا اور اُس کے بعد آج تک اُس خوبصورت دھرتی کو امن اور چین نصیب نہیں ہوا۔
ترکئی کی بغاوت کے نتیجے میں افغانستان کی اشرافیہ ترکِ وطن کرنے لگی اور ہماری یاترا کے وقت یہ انخلا تقریباً مکمل ہو چکا تھا۔ لیکن اتنا کہنا پڑتا ہے کہ پرانی افغان اشرافیہ کے طور طریقے اُس زمانے میں ہم نے کہیں دیکھے تو اُس سے پتا چلتا تھا کہ اُن کی تہذیب اُن کے اطوار یا یوں کہیے ناز نخرے ہماری کھوکھلی اشرافیہ سے کہیں افضل تھے۔ اُ س کی وجہ شاید یہ تھی کہ جس طرح کی غلامی ہندوستان نے دیکھی وہ افغانستان کے نصیب میں نہ آئی۔ جنگوں میں انگریز کابل تک تو پہنچے لیکن ہر بار اُنہیں پسپا ہونا پڑا۔ افغانستان کی شورشوں نے پرانی اشرافیہ اور بادشاہت کے تمام اثرات مٹا دیے اور اُن کی جگہ وہ مولویانہ کلچر پیدا ہوا جس کے مناظر آج افغانستان میں (اور پاکستان میں بھی) نمایاں ہیں۔
کاش پاکستان کے حکمرانوں میں اتنی سمجھ ہوتی کہ ایک سیکولر افغانستان کو برداشت کر لیتے۔ افغانستان کیلئے اچھا ہوتا اور سیکولر افغانستان کے نتیجے میں شاید پاکستان بھی کٹر پن کی جملہ بیماریوں سے بچ جاتا۔
Load/Hide Comments

