ہندوستان‘ برطانوی سامراج اور مزاحمت: ٹیپو سلطان …(2)

شاہد صدیقی
1790ء میں ایک بار پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج میسور پر حملہ آور ہوئیں۔ ٹیپو کی فوج نے بہادری سے اس حملے کا مقابلہ کیا۔ یہ جنگ دو سال تک جاری رہی۔ لیکن آخر کب تک! ٹیپو کی فوج پر دبائو بڑھتا گیا۔ آخرکار ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی ہوئی۔ اس معاہدے کی تین اہم شرائط تھیں: پہلی شرط کے مطابق میسور کی آدھی ریاست ایسٹ انڈیا کمپنی کو دی جانا تھی۔ دوسری شرط کے مطابق میسور کی ریاست نے دو سال کے اندر ایسٹ انڈیا کمپنی کو تین کروڑ روپے ادا کرنا تھے۔ تیسری شرط یہ تھی کہ ٹیپو سلطان کے دو بیٹے یرغمالی کے طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس رہیں گے۔
اس جنگ سے میسور کی ریاست کو شدید دھچکا لگا لیکن ٹیپو سلطان مضبوط اعصاب کامالک تھا۔ اس کا جنون ابھی زندہ تھا۔ اس نے ایک بار پھر میسور کی ریاست کے استحکام کی کوششیں شروع کر دیں۔ فوج کو نئے سرے سے منظم کیا گیا‘ جدید ہتھیاروں سے لیس کیا گیا‘ ریاست کی معیشت پر خاص توجہ دی گئی اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر مختلف ممالک سے رابطہ کیا گیا‘ جن میں فرانس قابلِ ذکر ہے۔ ریاست میسور کا نپولین سے براہِ راست رابطہ تھا۔ میسور اور فرانس کے بڑھتے ہوئے رابطے انگریزوں کیلئے تشویش کا باعث تھے۔ ان رابطوں کی بدولت نپولین ہندوستان کا رُخ بھی کر سکتا تھا اور یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئے قابلِ قبول نہ تھا۔ ہندوستان میں فرانسیسیوں کے اثر کو روکنے کیلئے ضروری تھا کہ فرانس کی اتحادی ریاست میسور اور ٹیپو کو ہمیشہ کیلئے راستے سے ہٹا دیا جائے۔
تیسری اینگلو انڈین جنگ کے بعد ٹیپو سلطان نے اپنی قوت کو دوبارہ مجتمع کرنے پر کام شروع کر دیا۔ وہ میسور کو نئے سرے سے ایک مضبوط معاشی اور عسکری طاقت بنانا چاہتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ میسور کی ریاست مضبوط ہو گی تو ایسٹ انڈیا کمپنی کا پورے ہندوستان پر تسلط کا خواب کبھی پورا نہ ہو سکے گا۔ یہ اس کے والد حیدر علی کی خواہش تھی اور ٹیپو اپنے والد کی خواہش کی تکمیل کیلئے ہر دم مصروف تھا۔ اس کیلئے ضروری تھا کہ اسے امن کے کچھ سال میسر آ جائیں۔ اسے کچھ وقت چاہیے تھا تاکہ وہ میسور کو ناقابلِ تسخیر بنا دے۔ میسور کی معاشی ترقی کا سفر جاری تھا کہ ٹیپو کو خبر ملی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میسور پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ ٹیپو سلطان اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔ یہ 1798ء کا سال تھا جب ٹیپو نے گورنر جنرل ولزلی کے نام ایک خط لکھا جس میں امن کے ساتھ رہنے کی پیشکش کی گئی۔ دراصل ٹیپو ریاست میسور کے استحکام کیلئے کچھ مزید وقت چاہتا تھا‘ لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی ٹیپو کے خاتمے کا تہیہ کر چکی تھی۔
گورنر جنرل ولزلی نے اپنی افواج کو پیش قدمی کا حکم دیا۔ یہ 1799ء کا سال تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میسور کی طرف بڑھنے لگی۔ اس فوج کی قیادت جنرل جارج ہیرس (George Harris) کر رہا تھا۔ ٹیپو سلطان ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کی نقل وحرکت سے مکمل باخبر تھے۔ ٹیپو نے اپنے ماموں زاد بھائی میر فخر الدین کو ایک دستے کا سپہ سالار بنا کر بھیجا تاکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو قلعے تک پہنچنے سے روکا جائے۔ اسے کیا معلوم تھا کہ اس کا اپنا سپہ سالار‘ ماموں زاد بھائی میر فخر الدین دشمنوں سے سازباز کر لے گا۔ اب ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے سرنگاپٹم کے قلعے کا محاصرہ کر لیا اور قلعے کی دیواروں پر شدید بمباری شروع کر دی۔ قلعے کی فصیلوں پر ٹیپو سلطان کی فوج ڈٹ کر مقابلہ کر رہی تھی۔ ایسے میں ٹیپو سلطان کے وزیرِ مالیات پورنیا (Purnaiah)‘ جو درپردہ انگریزوں سے ملا ہوا تھا‘ نے ایک خطرناک چال چلی۔ اس نے فوجیوں تک یہ اطلاع پہنچا دی کہ فوجیوں میں تنخواہیں تقسیم کی جا رہی ہیں۔ جونہی تنخواہیں تقسیم ہونے کی خبر فصیلوں پر فائز فوجیوں تک پہنچی‘ سب اپنی اپنی جگہیں چھوڑ کر تنخواہیں لینے کیلئے بھاگے اور یوں فصیلوں پر دفاع کیلئے کوئی باقی نہ رہا۔ ادھر توپوں کی مسلسل گولہ باری سے قلعے کی ایک دیوار میں شگاف پڑ گیا۔
قلعے کی فصیلوں پر دفاع کرنے والا کوئی نہ تھا۔ سب فوجی تنخواہ تقسیم ہونے کی خبر سُن کر فصیلوں سے جا چکے تھے۔ کہتے ہیں کہ فصیل سے کسی نے سفید پرچم بھی لہرا دیا تھا۔ یہ ان غداروں کی کارستانی تھی جو دوستی کے پردے میں دشمن سے ملے ہوئے تھے۔ ان میں میر قمر الدین‘ میر صادق‘ میر غلام علی لنگر‘ میر معین الدین اور وزیر مالیات پورنیا قابلِ ذکر ہیں۔ یہ سب اپنے اپنے حوالے سے اس سازش میں شریک تھے۔ میر صادق کا کردار مرکزی تھا۔ اسی نے دشمن کی فوج کو قلعے کا اندرونی نقشہ فراہم کیا۔ کہتے ہیں کہ اسی کے حکم پر قلعے کا دروازہ کھولا گیا تھا۔
یہ مئی کا مہینہ تھا اور پوری فضا میں بارود کی بُو پھیلی ہوئی تھی۔ ٹیپو سلطان کو پل پل کی خبر مل رہی تھی۔ تب کسی نے آ کر بتایا کہ سلطان کا وفادار سپہ سالار سید غفار شہید ہو گیا ہے۔ اب معاملہ سنگین ہو گیا تھا۔اس وقت سلطان کھانے کا آغاز کر رہا تھا۔ اس نے پہلا ہی نوالہ لیا تھا کہ اسے اپنے جاں نثار ساتھی سید غفار کی شہادت کی خبر ملی۔ سلطان نے فوراً کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور میدانِ جنگ میں جانے کا ارادہ کیا۔ ایسے میں اس کے وفادار محافظ راجہ خان نے درخواست کی کہ صورتحال بہت نازک ہے ‘ آپ کا اس وقت وہاں جانا ٹھیک نہیں۔ اس پر ٹیپو سلطان نے وہ جملہ کہا جو ضرب المثل بن چکا ہے ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ اس کا گھوڑا طائوس تیار تھا۔ اس نے اپنی پسندیدہ تلوار ہاتھ میں لی اور طائوس پر بیٹھ کر لڑائی کے میدان کی طرف روانہ ہو گیا۔ہر طرف توپوں اور گولیوں کی گھن گرج تھی۔ تلواروں کے ٹکرانے کی آوازیں اور زخمیوں کی کراہیں تھیں۔ ٹیپو کو اپنے درمیان پا کر اس کے ساتھیوں میں ایک نیا جوش آ گیا۔ لیکن ٹیپو کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ جس گیٹ سے نکل کر باہر آیا ہے اس کو میر صادق نے اندر سے بند کر دیا ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ٹیپو کی واپسی کا راستہ بند کر دیا جائے۔
جنگ کے شور شرابے میں کسی کو کسی دوسرے کا ہوش نہیں تھا۔ ٹیپو سلطان دیوانہ وار اپنی تلوار چلا رہا تھا۔ تلوار زنی کے فن سے اس کی آشنائی بچپن سے تھی۔ اچانک اس کے چہرے پر تلواروں کے دو کاری وار پڑے لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور مسلسل تلوار چلاتا رہا۔ پھر یکایک ایک گولی اس کی کنپٹی سے ذرا اوپر لگی۔ یہ گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔ ٹیپو تیورا کر نیچے گرا اور اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ ادھر میسور کے آسمان پر سورج غروب ہو رہا تھا‘ ادھر میسور کی ریاست میں حیدر علی اور اس کے بیٹے کے اقتدار کا آفتاب کنارے سے آ لگا تھا۔ یہ وہی مقام تھا جہاں واٹر گیٹ (آبی دروازہ) تھا۔ ٹیپوکی موت کی خبر کے ساتھ ہی اس کی فوج حوصلہ ہار بیٹھی۔ اب ٹیپو کی لاش کی تلاش شروع ہوئی اور پھر لاشوں کے درمیان سلطانِ میسور کی لاش ملی۔ چہرے پر وہی تمکنت تھی‘ ہاتھ میں تلوار اور کھلی آنکھوں میں آزادی کا خواب مجسم ہو گیا تھا۔ یہ چار مئی کا دن تھا۔
اگلے روز ٹیپو سلطان کا جنازہ تھا جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کہتے ہیں کہ جب ٹیپو کو لحد میں اتارا جا رہا تھا تو میسور کا آسمان سیاہ بادلوں سے گھِر گیا اور گرج چمک کے ساتھ تیز بارش شروع ہو گئی۔ جب اس کی قبر پر مٹی ڈالی جا رہی تھی تو جنازے میں شریک اس کے چاہنے والے سوچ رہے تھے کہ آج ایسٹ انڈیا کمپنی کے راستے کی آخری رکاوٹ بھی ختم ہو گئی ہے اور اب ہندوستان میں غلامی کی طویل رات کو کوئی نہیں روک سکتا۔ (ختم)

اپنا تبصرہ بھیجیں