وہ “بلوچ” تھا

عزیز سنگھور

22 اکتوبر 2025 کی شام، سندھ پولیس کے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) کے اہلکاروں نے 14 سالہ عرفان بلوچ کو کراچی کے علاقے عائشہ منزل سے تین دیگر ساتھیوں کے ساتھ اٹھا لیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ انہیں کسی واردات کے شک پر حراست میں لیا گیا ہے، مگر چند ہی دن بعد پولیس نے خود تسلیم کیا کہ عرفان سمیت چاروں نوجوان بے گناہ تھے۔ تین کو تشدد کے بعد چھوڑ دیا گیا، اور چوتھا، عرفان بلوچ، زندہ واپس نہ آیا۔

23 اکتوبر کی شام پولیس نے لواحقین کو ایک سرد لہجے میں اطلاع دی: “آپ کا بیٹا ہارٹ اٹیک سے مر گیا ہے، آ کر لاش لے جائیں۔”
لاش جناح اسپتال کے سرد خانے میں رکھی تھی۔ عرفان بلوچ کا تعلق بہاولپور کے علاقے بیٹ احمد سے تھا ایک چھوٹے سے گاؤں سے جہاں حالیہ سیلاب نے مٹی کے گھر، کھیت اور خواب سب بہا دیے۔ بھوک اور بیروزگاری نے اسے کراچی آنے پر مجبور کیا، مگر یہاں اسے مزدوری نہیں، موت ملی۔

پولیس رپورٹ کے مطابق عرفان بلوچ دورانِ حراست دل کے دورے سے جاں بحق ہوا، مگر اہلِ محلہ، عینی شاہدین اور رہائی پانے والے تین نوجوانوں نے بتایا کہ انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے جسموں پر بجلی کے نشانات، ڈنڈوں کے زخم اور اذیت کے آثار واضح تھے۔ عرفان کا اصل جرم صرف یہ تھا کہ وہ “بلوچ” تھا۔
چاہے وہ ڈیرہ جات کا بلوچ ہو، سندھ کا بلوچ ہو یا بلوچستان کا، اس شناخت کے ساتھ جینا اب جرم بن چکا ہے۔

ریاست نے بلوچ کو اس کی شناخت سے محروم کر کے محض ایک “مشکوک شہری” بنا دیا ہے۔ اب بلوچ کے لیے شناختی کارڈ پر لکھا ہوا “پاکستانی” ہونا بھی کافی نہیں۔ پولیس جب کسی بلوچ نوجوان کو دیکھتی ہے تو اس کی آنکھوں میں ایک پہلے سے طے شدہ مجرم چھپ جاتا ہے۔ یہی سوچ عرفان بلوچ جیسے معصوم بچوں کی لاشوں کو سرد خانوں تک پہنچاتی ہے۔

عرفان کا واقعہ کوئی پہلا نہیں، نہ آخری ہوگا۔ بلوچستان کے پہاڑوں سے لے کر سندھ کے ساحلوں تک، اور ڈیرہ جات کے دہاتوں سے کراچی کی گلیوں تک، بلوچ ہونا اب مستقل شک کی علامت بن چکا ہے۔ کبھی “دہشتگرد”، کبھی “غدار”، کبھی “اسمگلر” اور کبھی “غیر ریاستی عنصر” ، ان سب لیبلوں کے پیچھے ایک ہی چہرہ ہے۔ وہ ہے بلوچ ہونا۔
عرفان جیسے سینکڑوں نوجوان صرف اس لیے تشدد اور موت کا شکار بنتے ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ “بلوچ” لگا ہوتا ہے۔

عرفان کی کہانی یاد دلاتی ہے کہ پاکستان میں “بلوچ ہونا” اب محض ایک قومیت نہیں رہی، یہ ایک الزام بن چکی ہے۔
بلوچ اگر اپنی زمین پر بولے تو “علیحدگی پسند” کہلاتا ہے، اگر مزدوری کے لیے شہر آئے تو “مشکوک”، اور اگر خاموش رہے تو “غیر ذمہ دار”۔ گویا بلوچ کے لیے جینے کا کوئی محفوظ راستہ باقی نہیں رہا۔

عرفان بلوچ مر گیا، مگر اس کی کہانی زندہ ہے۔ یہ کہانی یاد دلاتی ہے کہ بلوچ مزدور ہو یا شاعر، طالب علم ہو یا ڈاکٹر، سب پر ایک سا شک ہے۔
ریاست چاہے جتنے بھی بیانیے تراش لے، عرفان بلوچ کی لاش ان تمام جھوٹوں پر ایک زندہ سوال ہے: آخر بلوچ ہونا کب سے جرم بن گیا ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں