ہوش دلاؤ نوٹس

آصف عفان
باون سالہ آئین میں 27ویں ترمیم کا پیوند لگانے کی تیاریاں عروج پر ہیں جبکہ 26ویں ترمیم کے بعد نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے فرمان جاری کیا تھا کہ ابھی تو 26ویں ترمیم ہضم نہیں ہو رہی‘ 27ویں کی ضرورت نہیں۔ لیکن جب ضرورت ہی نظریہ بن جائے تو نظریۂ ضرورت کس طرح مر سکتا ہے؟ فیصل واوڈا نے تو 28ویں ترمیم کا عندیہ بھی دے ڈالا ہے۔ آئین کو بالی عمر میں ہی ترامیم کے اتنے پیوند لگائے جا چکے ہیں کہ اس کے اصل مندرجات اور خدوخال پہچانے ہی نہیں جاتے۔ جنرل ضیا الحق نے اسے محض دستاویز اور کاغذ کا ٹکڑا قرار دیتے ہوئے پیوند کی جو ضربیں لگائی تھیں‘ وہ بدعت ہر دور میں اتنی تیزی سے دوام پکڑتی رہی کہ جو حکمران بھی آیا اس نے طولِ اقتدار کیلئے آئین میں ضرورت کا پیوند ضرور لگایا۔ ضیا الحق کی آٹھویں ترمیم ہو یا اقتدار و وسائل کے بٹوارے کے گٹھ جوڑ کی 18ویں ترمیم‘ آئین کے ماتھے پر انہی داغوں کو حکمران جھومر تصور کرتے چلے آئے ہیں۔ ابھی 27ویں ترمیم آئی نہیں کہ 28ویں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ عزیز محترم حسن نثار نے تو برملا کہہ ڈالا ہے کہ خاطر جمع رکھیں! یہ 30ویں ترمیم تک بھی جائیں گے۔ ترامیم کیا ہیں؟ حیلے‘ جواز‘ بہانوں اور ڈھکوسلوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔
دو سال قبل آئین کی گولڈن جوبلی پر برسی کا گماں ہوتا تھا لیکن ایسا سناٹا تو برسیوں پر بھی نہیں ہوتا۔ مہذب ممالک میں آئین‘ قانون‘ ضابطے اور پالیسیاں ملک و قوم کی فلاح‘ ترقی اور استحکام کیلئے بنائے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بنے بنائے آئین میں ضرورتمندی کے لگائے گئے سبھی پیوند عوام کو برابر منہ چڑا رہے ہیں۔ آئین میں پیوند اسی طرح لگتے رہیں گے‘ شنید ہے کہ 27ویں ترمیم کا مسودہ آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ تعجب ہے اسحاق ڈار نہ صرف 26ویں ترمیم کو ہاضمے پر بوجھ قرار دے رہے تھے بلکہ 27ویں ترمیم کی گنجائش کو بھی ردّ کرتے رہے ہیں۔ اب تازہ فرمان یہ ہے کہ 27ویں ترمیم آ رہی ہے‘ ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک پوائنٹ پر ہیں اور اتحادیوں کو بھی لے آئیں گے۔ ان تضاد بیانیوں کے نقطے ملائیں تو ضرورت ہی نظریہ نظر آتا ہے۔
ادھر ہمارے حکمران 27ویں ترمیم کی تیاری اور منظوری میں مصروف ہیں‘ اُدھر امریکہ میں ٹرمپ بہادر ماتمی اور سوگوار صورتحال سے دوچار ہیں۔ نیویارک جیسے شہر کی میئر شپ زہران ممدانی لے اُڑے‘ ٹرمپ سمیت ان کے حواریوں پہ مبنی سبھی اشرافیہ منہ تکتی اور ہاتھ ملتی رہ گئی۔ جو چلے تھے دنیا کو مرضی کے مطابق چلانے ان سے نیو یارک کی میئرشپ بھی نہ بچائی جا سکی۔ زہران ممدانی سے نمٹنے کیلئے ٹرمپ بہادر ہمارے ہنرمندانِ ریاست و سیاست سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ 34سالہ مسلمان زہران ممدانی نے دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ کے صدر کی بھرپور مخالفت کے باوجود نیویارک فتح کر کے پہلا پیغام دیا ہے کہ میں آ گیا ہوں۔ زہران ممدانی اپنی متاثر کن انتخابی مہم میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے بارے میں بھی اپنی جداگانہ رائے کا اظہار اس طرح کرتے رہے ہیں کہ میرے میئر منتخب ہونے کے بعد نیتن یاہو نیویارک آئے تو انہیں گرفتاری کا سامنا کرنا ہو گا۔ اسی طرح صدر ٹرمپ کے علاوہ ایلون مسک سمیت دنیا کے امیر ترین ٹائیکونز بھی ممدانی کی جیت میں بڑی رکاوٹ تھے لیکن یہودی گٹھ جوڑ مسلم میئر کی کامیابی نہیں روک پایا۔ ٹرمپ نے تو ان کی جیت کو ملک کی خود مختاری پر ضرب قرار دے ڈالا ہے۔
تازہ ترین امریکی منظرنامہ ان سبھی کیلئے ہوش دلاؤ نوٹس ہے جو امریکی صدر کی پذیرائی اور تعریفوں کے پہاڑ بنانے پر جتے ہوئے ہیں۔ نوبیل پرائز کی نامزدگی سے لے کر زمینی حقائق سے کوسوں دور نت نئے بیانیوں کے پرچارک بنے ہوئے ہیں۔ حالیہ بھارت امریکہ دفاعی معاہدہ امریکی رومانس کے خمار کو بخار میں بدلنے کیلئے کافی ہے۔ جبکہ نیویارک جیسے طاقت کے مرکز کا ٹرمپ کی دسترس سے باہر نکلنا بھی ایک خاص پیغام ہے۔ امریکی صدر کی میزبانی سے شروع ہونے والا رومانس ناکام عشق بن چلا ہے جبکہ محبوب کی بیوفائی نوشتۂ دیوار تھی۔ حالیہ کالموں میں مَیں مسلسل باور کراتا رہا ہوں کہ پاک امریکی تعلقات کو تاریخ کے پس منظر اور زمینی حقائق کی عینک سے دیکھیں تو یہ سبھی بھید بھاؤ‘ نمائشی معانقے اور مصافحے خود بخود ڈی کوڈ ہو جائیں گے۔ یہ سوال بھی اٹھاتا رہا ہوں کہ امریکی دوروں میں زبانی جمع خرچ اور فوٹو سیشن کی کمائی کے عوض دے کر کیا آئے ہیں؟ اس تازہ ترین دفاعی معاہدے کو بھارت میں اس طرح مارکیٹ کیا جا رہا ہے کہ بھارت پہ حملہ امریکہ پہ حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس تناظر میں پاک بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ لینے والے صدر ٹرمپ کا اگلا پینترا مزید بڑا دھچکا ہو گا۔ بیوپاریوں کی طرح امورِ مملکت چلانے والے صدر ٹرمپ جنگ بندی نہیں کروائیں گے بلکہ بھارتی جارحیت کی توجیہات اور جواز پیش کرتے نظر آئیں گے۔ ایک طرف پاک سعودی معاہدہ ہے تو دوسری طرف بھارت امریکہ معاہدہ‘ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہے یا بوجوہ لیٹ جاتا ہے اس کا فیصلہ زیادہ دور نہیں‘ ضرورت فقط ہوشمندی کی ہے۔
چلتے چلتے کچھ احوال پنجاب کا بھی ہو جائے‘ جہاں اینٹی سموگ اقدامات ریکارڈ توڑ ثابت ہوئے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت آلودہ ترین شہر قرار پانے کے باوجود زندگی معمول کے مطابق اور رواں دواں ہے۔ نہ لاک ڈاؤن تک بات پہنچی اور نہ ہی بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سموگ کے باعث گلے اور آنکھوں سمیت دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کی قطاریں بھی نظر نہیں آرہیں جبکہ ڈرؤنز سے مؤثر فضائی مانیٹرنگ بھی برابر جاری ہے۔ کہیں پانی کا چھڑکاؤ کرتے دیو ہیکل ٹرک سموگ بھگا رہے ہیں تو کہیں فصلوں کی باقیات کو آگ لگا کر تلف کرنے والے کسان سپر سیڈر مشینوں کے ذریعے ناصرف باقیات سے جان چھڑوا رہے ہیں بلکہ زمین زرخیز ہونے کا بونس بھی انجوائے کر رہے ہیں۔ ان سبھی اقدامات کی نہ صرف خود نگرانی کی جا رہی ہے بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ نہ کرنے والے بھٹوں کے خلاف بھی آپریشن جاری ہے۔ ادھر ڈرون نے چمنی سے دھواں نکلنے کی نشاندہی کی‘ اُدھر ٹیمیں مسمار کرنے کیلئے جا پہنچیں۔ اسی طرح آلودگی میں بڑے اضافے کا باعث بننے والی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو بھی 15نومبر تک ڈیڈ لائن جاری کر دی گئی ہے‘ ڈیڈلائن کے بعد آلودگی کا باعث کوئی گاڑی سڑک پہ نہیں آسکے گی۔ اینٹی سموگ حکمتِ عملی کے حیرت انگیز نتائج پر سیاست اور پوائنٹ سکورنگ بھی خوب جاری ہے۔ پی ٹی آئی کے شہباز گل سات سمندر پار سے گڈ گورننس کے اس نمونے پر خوب سیاست کرنے کے علاوہ تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی اپنے دورِ حکومت میں سموگ کے دوران کاروبارِ زندگی مفلوج کرنے کے علاوہ خطرناک بیماریوں اور لاک ڈاؤن کے تحائف عوام کو دیتی رہی ہے۔ اپنی آنکھ کے شہتیر سے بے نیاز دوسروں کی آنکھ میں بال پر وبال کھڑا کرنے والے تنقید برائے تنقید سے سوشل میڈیا پر پذیرائی اور ریٹنگ تو ضرور حاصل کر رہے ہیں لیکن اس بار تو ناقدین بھی اینٹی سموگ حکومتی کارکردگی کی تعریف کرتے نظر آرہے ہیں۔ سموگ کا خاتمہ حکومت کی اولین اور عملی ترجیح نظر آرہا ہے۔ خداکرے یہ پالیسی وقتی اور سیزنل نہ ہو‘اصل وجوہات اور اسباب کے خاتمے کیلئے پورا سال کام کریں گے تو سموگ سے مستقل چھٹکارا پا سکیں گے‘ ورنہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی تو سبھی حکومتوں کی رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں