پنجاب میں صحتِ عامہ کے مسائل

خورشید ندیم
جواں سال بچی‘ دیکھتے ہی دیکھتے رخصت ہو گئی۔ رخصت تو اس نے ہونا تھا کہ ماں اور بہن بھائی اس کا جہیز تیار کر رہے تھے‘ مگر اس کی منزل بدل گئی۔ وہ سسرال نہیں گئی‘ قبرستان جا پہنچی۔ میں نے مگر آج یہ دکھ بھری کہانی نہیں‘ ایک جگ بیتی سنانی ہے۔
وہ اچانک بیمار پڑی تو معلوم ہوا کہ راولپنڈی کے سرکاری ہسپتالوں میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ایک نجی ہسپتال میں داخل کرایا گیا‘ لاکھوں خرچ ہو گئے مگر بیماری کی تشخیص نہ ہو سکی۔ سات دن بعد کہا گیا کہ اسے کسی بڑے ہسپتال لے جائیں۔ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا اس بچی کو ایک ریاستی ادارے کے ہسپتال لے جایا گیا مگر انہوں نے معذرت کر لی کہ وہاں کوئی بستر خالی نہ تھا۔ آخری بازی کھیلی گئی اور ایک سرکاری ہسپتال میں جگہ ملی مگر ذاتی خرچ پر۔ سات دن مزید آئی سی یو میں اس طرح گزارے کہ ایک طرف جیب خالی ہوئی اور دوسری طرف زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی۔ شادی کا گھر ماتم کدہ بن گیا۔
ابھی یہ دکھ تازہ تھا کہ معلوم ہوا ایک اور عزیز کودل کا دورہ پڑا ہے۔ ان کی اہلیہ نے مشکل کے ساتھ راولپنڈی کے ایک سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی تک پہنچایا۔ کہا گیا یہاں کچھ نہیں ہو سکتا‘ انہیں پی آئی سی لے جائیں۔ ایمبولینس کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ تو موجود نہیں۔ اکیلی عورت نے درد سے تڑپتے خاوند کو گاڑی میں ڈالا اور پی آئی سی پہنچایا۔ موت کے فرشتے کو ابھی بارگاہِ الٰہی سے کوئی حکم نامہ نہیں ملا تھا۔ جان تو بچ گئی مگر یہ حادثہ پہلے المیے کی طرح‘ ایک سوال چھوڑ گیا۔ ہم اپنے شہریوں کو صحت کی سہولت کیوں نہیں دے سکتے؟
میں جانتا ہوں آپ کے لیے ان واقعات میں کوئی نیا پن نہیں۔ آپ کے گرد بھی ایسی کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر روز یہ سوال آپ کے سامنے بھی اسی طرح آ کھڑا ہوتا ہے۔ چند آسودہ حال لوگوں کو چھوڑ کر یہ ہر گھر کی کہانی ہے۔ ہسپتال مریضوں سے اَٹے پڑے ہیں۔ میں نے جن واقعات کا ذکر کیا‘ ان میں انسانی غلطی کا ذکر نہیں۔ یہ نظام کی کمزوریوں کا بیان ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ ہسپتال میں فی الواقعہ بستر خالی تھا اور مریضہ کو داخل نہیں کیا گیا یا ایمبولینس موجود تھی مگر فراہم نہیں کی گئی۔ دراصل صحت کے اس نظام ہی میں سکت نہیں کہ وہ مریضوں کا بوجھ اٹھا سکے۔ نظام موجود ہے مگر ناکافی ہے۔
گیلپ نے مالی سال 2023-24ء کا ایک سروے جاری کیا ہے جو پنجاب کے ہسپتالوں سے متعلق ہے۔ اس کے مطابق اس سال کے دوران میں ساٹھ لاکھ مریض ان ہسپتالوں میں داخل کیے گئے۔ دس لاکھ نو ہزار افراد کی سرجری ہوئی۔ اعلیٰ سہولتوں کے ساتھ 63 ہزار بستر میسر تھے جو نوے فیصد سے زیادہ استعمال میں رہے۔ تحصیل اور ضلع ہیڈ کواٹر ہسپتالوں کی نسبت ٹیچنگ ہسپتالوں میں اموات کی شرح زیادہ رہی۔ اس سال اموات کی عمومی شرح تین فیصد تھی۔ خواتین مریضوں کی تعداد زیادہ رہی‘ 54فیصد۔ ساٹھ لاکھ میں سے 55 لاکھ کو اللہ تعالیٰ نے شفا دی۔ ایک قابلِ غور پہلو یہ بھی ہے کہ ہسپتال میں داخل ہونے والے زیادہ تر مریض 15سے 49 سال کی عمر کے تھا۔ تاہم مرنے والوں کی زیادہ تعداد ستر برس سے زیادہ عمر کے افرادکی رہی۔ اب ایسا نہیں ہے کہ نجی ہسپتالوں میں مریض نہیں ہیں۔ وہاں بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ لوگ بادلِ نخواستہ وہاں جاتے ہیں۔ وہ مالی اعتبار سے اس کی استطاعت نہیں رکھتے مگر مجبوراً اس طرف کا رخ کرتے ہیں۔ عام طور پر اس کے دو اسباب ہیں۔ ایک تو انہیں سرکاری ہسپتالوں سے شکایت ہوتی ہے کہ وہاں علاج میں لاپروائی برتی جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ وہاں جگہ نہیں ملتی۔
یہ سروے پنجاب میں صحت کی ناکافی سہولتوں کو بیان کر رہا ہے۔ اس کے تین بڑے اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ صحت کے لیے مختص بجٹ ناکافی ہے۔ آبادی کی نسبت سے نہ ہسپتال موجود ہیں اور نہ ڈاکٹر۔ اس کا سادہ حل تو یہی ہے کہ بجٹ کو بڑھایا جائے۔ تعلیم اور صحت تو بنیادی ضروریاتِ زندگی ہیں جن کی فراہمی کو مقاصدِ ریاست میں اولیت حاصل ہونی چاہیے۔ دوسرا سبب نا اہلی اور کرپشن ہے۔ جو وسائل میسر ہیں‘ وہ بھی دیانت داری اور حکمت کے ساتھ استعمال ہوں تو صورتِ حال میں بہتری آ سکتی ہے۔ تیسرا سبب آبادی ہے۔ ہمارے ملک کی آبادی اور ہمارے وسائل میں کوئی نسبت نہیں ہے۔ اگر بجٹ بڑھا بھی دیا جائے تو بھی اس آبادی کے بنیادی مسائل حل کرنا‘ پاکستان جیسی ریاست کے لیے ممکن نہیں ہے جسے دفاع اور دوسرے مسائل کے لیے اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ آبادی کے مسئلے کو ایک مثال سے بہتر سمجھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں بڑے شہر کی سڑکوں کی غیرمعمولی توسیع ہوئی ہے۔ بہت سے نئے پل بنے ہیں۔ اس کے باوجود ٹریفک کے مسائل اپنی جگہ موجود ہیں۔
پہلے دو مسائل تو حکومت نے حل کرنے ہیں۔ صحت پر زیادہ روپیہ خرچ کرنا ہے اور آبادی کی ضروریات کو سامنے رکھنا ہے۔ اسی طرح کرپشن اور نا اہلی کی روک تھام بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ ہمارے سرکاری ہسپتال چند بڑے نجی ہسپتالوں کے استثنا کے ساتھ‘ آج بھی نجی ہسپتالوں سے بہتر ہیں۔ جن ہسپتالوں کا استثنا ہے‘ وہ بہت مہنگے ہیں جن سے ایک آسودہ حال اقلیت ہی استفادہ کر سکتی ہے۔ بعض سرکاری اداروں کے ملازمین کو ان سے علاج کرانے کی سہولت میسر ہے جن سے عام آدمی کے لیے بھی موقع پیدا ہو گیا ہے کہ وہ ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ دیگر تمام نجی ہسپتال پیسہ کمانے کی مشینیں ہیں جن کا کوئی تعلق عام آدمی سے نہیں ہے۔ تاہم اس کے باوصف سرکاری ہسپتالوں میں بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ اس پر صوبائی حکومت کو خصوصی توجہ دینا ہو گی۔
رہی آبادی تو اس میں اضافہ ایک سماجی مسئلہ ہے جسے تربیت اور تعلیم ہی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ حکومت صرف آگاہی پیدا کر نے میں معاونت کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے کوئی قانون سازی مفید نہیں ہو گی۔ لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس دنیا میں آنے والے ہر بچے کو صرف روٹی ہی نہیں‘ اچھی تعلیم اور تربیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جو ماں ہر سال بچہ پیدا کرتی ہو‘ وہ چاہے بھی تو ان کی تربیت کے لیے وقت نہیں نکال سکتی۔ لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کسی بچے کا باپ یا ماں ہونا‘ ایک بڑی سماجی ذمہ داری ہے۔ بچہ پیدا کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ کیا والدین یہ ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟ اگر آبادی کو قابو میں لایا جا سکے تو ہماری صحت اورتعلیم کے مسائل بھی کم ہو جائیں گے۔
صحت اور تعلیم کو حکومت اور سماج دونوں کو اپنا مسئلہ سمجھنا چاہیے۔ اہلِ اقتدار کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انہوں نے یہ ذمہ داری اپنی خواہش اور کوشش سے اٹھائی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی نے انہیں اس کی پیشکش کی تھی یا ان کے سر پڑ گئی ہے۔ اگر اپنی خواہش سے اٹھائی ہے تو پھر انہیں اس کے لیے خدا کے حضور میں جواب دہ ہونا ہے۔ وہاں کوئی عذر کام نہیں آئے گا کہ آبادی زیادہ تھی یا فلاں وجہ سے ہم یہ ذمہ داری نبھا نہ سکے۔ خدا کی عدالت میں آپ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ آپ نے پوری کوشش کی۔ اسی طرح مذہبی و سماجی قیادت پر فائز لوگوں کو بھی جواب دہ ہونا ہو گا کہ انہوں نے سماجی تعلیم کے لیے کیا کیا۔ عوام میں زندگی کا شعور پیدا کیا یا صرف ان کے جذبات کا استحصال کیا۔ آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہماری آبادی میں اضافہ ہے۔ آبادی کا وہ طبقہ بڑھ رہا ہے جس کے وسائل کم ہیں اور اس کا سبب شعور کی کمی ہے۔ فٹ پاتھ پہ سونے والوں کے بچے سب سے زیادہ ہیں۔ سماجی تنظیموں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں