افغانوں کے بارے میں غلط فہمی

افتخار احمد سندھو
ہماری افغان پالیسی کبھی بھی غلطیوں سے مبرا نہیں رہی‘ بلکہ اس میں ہم سے کئی بلنڈر سرزد ہوئے۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ساری غلطی پاکستان کی ہے اور افغانوں نے آج تک ہمارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔ پاکستان جب معرضِ وجود میں آیا تو اس وقت اقوام متحدہ میں افغانستان نے پاکستان کے خلاف جو کچھ کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں‘ بلکہ تاریخ کا حصہ ہے۔ کیا اس وقت بھی افغانوں نے پاکستان کی افغان پالیسی کی وجہ سے وہ قدم اٹھایا تھا؟ یہیں پر بس نہیں! افغانستان نے 1948ء اور 1949ء میں پاکستان پر باقاعدہ حملے کیے۔ 1955ء میں افغانستان میں پاکستانی سفارتخانے کو نذرِ آتش کیا گیا۔ کیا یہ بھی پاکستان کی افغان پالیسی کا ردِعمل تھا؟ بات یہ ہے کہ افغان کبھی بھی پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں رہے بلکہ یہ لوگ ہمیشہ اپنے مالی مفادات کے اسیر رہے ہیں۔ جب سکندر یونانی نے افغانستان پر قبضہ کیا تو افغانوں نے اس کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیں‘ لیکن جب سکندر نے ان وار لارڈز کو پیسے دے کر ایک افغان خاتون رخسانہ سے شادی کر لی تو سب خاموش ہو کر بیٹھ گئے اور اس کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں بالکل بند کردیں۔ بعد ازاں سکندر نے جب ایرانی سلطنت کے خلاف لڑائی شروع کی تو وہاں کا ایک حکمران بھاگ کر افغانوں کے پاس آ گیا ‘جسے پناہ دینے کے بجائے ایک افغان جرنیل نے پکڑ کر اسے سکندر کے حوالے کر دیا۔
افغانستان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ کرائے پر کام کرتے رہے ہیں‘ اور اب بھی کر رہے ہیں۔ افغانستان کی پوری تاریخ کرائے کی جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ آج بھی آپ کچھ پیسے دے کر دیکھ لیں‘ یہ آپ کے ساتھ ہو جائیں گے۔ آسان لفظوں میں یہ بھتہ خور ہیں۔ موجودہ افغان رجیم کوئی مذہبی حکومت نہیں بلکہ یہ وار لارڈز ہیں۔ طالبان رجیم میں خواتین کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ افغان لڑکیاں تعلیم اور روزگار کے مواقع سے محروم ہیں۔ افغانستان میں جتنا برا حال خواتین کا ہے‘ یا جتنا استحصال بچوں کا ہوتا ہے‘ اس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ طالبان رجیم کا ایک ہی کاروبار ہے‘ وہ ہے لڑائی اور جنگ و جدل۔ اسی سے یہ پیسے کماتے ہیں۔ انسانی حقوق کا جتنا برا حال افغانستان میں ہے‘ اس کی مثالی دنیا بھر میں نہیں ملتی۔ لیکن ہمارے بعض نام نہاد دانشور ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔
افغانیوں کے حق میں لکھنے والے ہمارے ملک کے کچھ دانشور قصداً پاکستان کی افغان پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ گویا افغان تو کچھ کر ہی نہیں رہے۔ یہ مؤقف بالکل غلط ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ افغانوں نے پاکستان کو ہر موقع پر بہت تنگ کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ ایک موقع پر علامہ جاوید احمد غامدی نے بھی کہہ دیا تھا کہ افغانوں کا یہ حال ہماری وجہ سے ہوا ہے‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم نے ان کا کوئی نقصان نہیں کیا۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی تاریخ سب کے سامنے ہے۔ میرے دانشور بھائیوں کا افغانستان اور افغانوں کے حوالے سے دکھی ہونا اپنی جگہ پر مگر تاریخ کو تو نہیں بدلا جا سکتا اور نہ ہی آپ افغانوں کو سچا ثابت کر سکتے ہیں‘ کیونکہ وہ کسی بھی لحاظ سے راست گو نہیں ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ خیر کا جواب شر سے دیا ہے۔ اسلاف کا ایک مشہور قول ہے کہ ”جس کے ساتھ احسان کرو‘ اس کے شر سے بچو‘‘۔ مولانا رومیؒ ایک حکایت بیان کرتے ہوئے یہ قول سیدنا علیؓ سے منسوب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس مقولے کا تعلق کمینے آدمی کے ساتھ ہے کیونکہ کمینہ خصلت آدمی ہی احسان کا بدلہ شر سے دیتا ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے‘ اس کی تمام تر ذمہ داری طالبان رجیم پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان اس وقت اگر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے‘ تو ایسا افغان طالبان رجیم کی افغانستان میں پناہ گزین دہشت گردوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہے۔ افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کی معاونت اور سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیں تو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات نہ صرف معمول پر آ سکتے ہیں بلکہ ان میں بہتری کا قوی امکان ہے۔ افغان طالبان کی موجودہ قیادت میں بیشتر افراد ایسے ہیں جو پاکستانی مدرسوں سے فارغ التحصیل ہیں‘ انہیں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پاکستان کے اس جائز مطالبے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو‘ کی جانب عملی پیش رفت کرنی چاہیے۔
بہت سے لوگوں کو یہ بھی غلط فہمی ہے کہ افغان قوم کبھی کسی کے غلام نہیں رہی۔ زیادہ دور کی بات نہیں‘ 1700ء سے پہلے تک افغان غلام ہی تھے۔ پہلے یونانیوں کے اور پھر ترکوں کے۔ یہ قومیں وسطی ایشیا سے آتی تھیں۔ 1747ء میں احمد شاہ درانی‘ جسے احمد شاہ ابدالی بھی کہا جاتا ہے‘ نے جدید افغانستان کی بنیاد رکھی تھی۔ افغانستان کی معلوم تاریخ 500 قبل از مسیح سے شروع ہوتی ہے۔ پہلے آریاؤں نے افغانستان کو تاراج کیا‘ جسے پھر ایرانیوں نے ان سے چھین لیا۔ اس کے بعد یہ طویل عرصہ تک سلطنتِ فارس کا حصہ رہا۔ 330 قبل از مسیح میں سکندر یونانی اس ملک میں آیا اور اس نے تین سال تک بلخ کو اپنا دار الحکومت بنائے رکھا۔ یہ یونانی بودھ تہذیب کا دور تھا۔ سکندر نے اس کے کئی حصے ایرانیوں سے چھین لیے جن میں بلخ بھی شامل تھا‘ مگر یونانیوں کا یہ قبضہ زیادہ دیر نہ رہا۔ 642 ء تک یہ علاقہ وقتاً فوقتاً یونانیوں‘ منگولوں‘ ساسانیوں اور ایرانیوں کے پاس رہا۔ جس کے بعد اس علاقے کو مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ مسلمانوں کی اس فتح کو تاریخ میں صرف عربوں کی فتح سمجھا جاتا ہے‘ جو ایک اعتبار سے غلط ہے کیونکہ مسلمانوں میں کئی اقوام کے لوگ شامل تھے۔ اسلام سے پہلے یہاں کے لوگ بدھ مت اور کچھ قبائلی مذاہب کے پیروکار تھے۔
کالعدم ٹی ٹی پی اور تحریک طالبان افغانستان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں‘یہ دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں‘دونوں کے مقاصد مشترک ہیں اور طریقہ وارادت بھی ایک جیسا ہے۔ان کا نظریہ ایک ہے اور یہ نظریہ فساد فی الارض پر مبنی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کا کامیاب ہوناممکن نظر نہیں آتا۔ یہ لوگ اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہیں اور اپنی خواہشات کواسلام کے لبادے میں لپیٹ کربیچنا چاہتے ہیں۔
اس وقت استنبول میں پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے‘ لیکن جمعرات کے روز جب یہ مذاکراتی عمل شروع ہوا‘ بلوچستان میں چمن بارڈر کے پاس افغان طالبان کی جانب سے کھلی جارحیت کی گئی جس کا افواجِ پاکستان کی طرف سے بروقت مگر ذمہ دارانہ جواب دیا گیا۔ گزشتہ ماہ جب افغانستان کی طرف سے سرحدی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا تو افغان وزیر خارجہ دہلی میں بیٹھا ہوا تھا‘ یعنی یہ سب بھارت کی شہ پر ہو رہا تھا۔ پاکستان کی طرف سے بارہا افغان قیادت کو دوحہ معاہدہ یاد دلاتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ افغان حکومت اپنی سرزمین کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی پابند ہے‘ لیکن طالبان حکومت نے دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف مذموم کارروائیوں کیلئے استعمال کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے افغان طالبان اب بھارت کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں‘ لیکن افغانستان کا بھارت کی پراکسی بنناکسی صورت بھی پاکستان کیلئے قابلِ برداشت نہیں ہوگا۔ افغانستان میں دہشت گردوں کے جو ٹھکانے پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں‘ طالبان رجیم کو انہیں بہر صورت ختم کرنا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں