ڈاکٹر حسین احمد پراچہ
26ویں کے بعد اب 27ویں آئینی ترمیم کی تیاری آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ فقیر کی مولانا فضل الرحمن سے پرانی یاداللہ ہے اور میں بالخصوص انکے ”آئین کے تناظر میں‘‘ طرزِ تخاطب کا بہت بڑا مداح ہوں۔ کسی اہم آئینی اور قومی مسئلے پر میں مولانا کے تبصرے اور تجزیے کا منتظر رہتا ہوں۔ اس بار مولانا سرو پر چپ بیٹھی فاختہ کی طرح خاموش ہیں۔ خاکسار نے ایک دو بار ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔
26ویں آئینی ترمیم کی طرح 27ویں کے بارے میں مکمل راز داری سے کام لیا جا رہا اور سرگوشیوں اور اشاروں سے کام چلایا جا رہا ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری بہت پُرجوش تھے مگر آخری موقع پر مولانا فضل الرحمن قدرے متحرک ہوئے اور انہوں نے اس ترمیم کو کچھ نرم کروانے کی کوشش کی؛ البتہ یہ کوشش زیادہ کامیاب نہ ہو سکی۔ ملک کے سیاسی کلچر میں آئین کی تعمیل پر نہیں‘ ترمیم پر زور رہا ہے۔ اس کام میں سیاسی حکمران اور مقتدرہ دونوں شامل رہے ہیں۔ صدر ضیا الحق مرحوم نے آٹھویں دستوری ترمیم کے ذریعے 1985ء میں آئین میں آرٹیکل اٹھاون ٹو بی داخل کیا‘ جس کے مطابق حکومت کو ایک صدارتی فرمان کے ذریعے رخصت کیا جا سکتا تھا۔ بعد میں میاں نواز شریف نے 1997ء دوتہائی اکثریت حاصل کر کے 13ویں آئینی ترمیم منظور کروا کے حکومت توڑنے کا یہ اختیار صدر سے واپس لے لیا۔ یہ تب کی بات تھی‘ اب تو میاں صاحب منقارِ زیر پر ہیں۔
26ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ میں آئینی بینچ کے قیام اور دیگر کئی قدغنیں لگا کر اس کی آزادی کو کافی حد تک سلب کر لیا گیا تھا‘ تاہم پھر بھی حکومت کی مکمل تسلی اور تشفی نہ ہوئی‘ اس لیے اب 27ویں ترمیم کے ذریعے عدالتِ عظمیٰ کو مکمل طور پر پابہ جولاں کیا جا رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ عدلیہ کو مصری ماڈل کے مطابق انتظامیہ کی خواہشات کے تابع بنایا جا رہا ہے۔ 27ویں آئینی ترمیم کی مجوزہ تبدیلیوں میں مکمل آئینی عدالتوں کے قیام کی منصوبہ بندی بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب غالباً یہ ہو گا کہ آئین سے چھیڑ چھاڑ بلکہ کھلواڑ کی مکمل آزادی حاصل کر لی جائے۔ آئینی عدالتوں میں اکثریتی جماعت یا اتحاد کے پسندیدہ ججوں کو تعینات کرنے کا اختیار وزیراعظم کو مل جائے گا۔ اس کے علاوہ ہائیکورٹ کے ججوں کا انکی مرضی اور منشا کے خلاف تبادلہ کیا جا سکے گا۔ عدلیہ کے سروں پر بیورو کریسی کی طرح ہر وقت یہ تلوار لٹکتی رہے گی کہ حکومت کی ناراضی کی صورت میں انہیں ”کالا پانی‘‘ بھیجا جا سکے گا۔آئین کے آرٹیکل 243 میں بھی بعض تبدیلیوں کی خبریں سنائی دے رہی ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت نے کوئی باقاعدہ مسودۂ ترمیم تو جاری نہیں کیا‘ تاہم اس حوالے اسلام آباد کے ایک معاصر تجزیہ کار‘ کہ جو سرکاری اداروں سے قربت کی شہرت رکھتے ہیں‘ کا کہنا ہے کہ اس ترمیم میں دفاع سے جڑی ایسی کئی شقیں شامل کی جائیں گی‘ جو حالیہ پاک بھارت جنگ سے سیکھے گئے سبق کی روشنی میں تیار کی گئی ہیں‘ اور مسلح افواج کے درمیان رابطہ کاری کو مزید مضبوط کرنے کیلئے ضروری تھیں۔ چونکہ اس حوالے سے ہمیں کوئی زیادہ معلومات حاصل نہیں اس لیے ہم کچھ زیادہ عرض کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔
جہاں تک این ایف سی ایوارڈ کا تعلق ہے تو پہلے قارئین کو یاد دلا دوں کہ اس سے مراد وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ ہے۔ شروع میں صرف صوبوں کی آبادی کو این ایف سی ایوارڈ کی بنیاد بنایا جاتا تھا مگر ساتویں ایوارڈ کی تقسیم سے صرف آبادی کو نہیں بلکہ اس کے علاوہ صوبوں کی غربت‘ وہاں صوبائی محصولات کی وصولی اور دیگر کئی مسائل کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ موجودہ ایوارڈ کے تحت پنجاب کو تقریباً 52فیصد‘ سندھ کو 24.5‘ خیبر پختونخوا کو 14.62اور بلوچستان کو تقریباً 10فیصد حصہ ملتا ہے۔ اب 27ویں ترمیم کے تحت اس ایوارڈ کی تقسیمِ نو کا منصوبہ دیا گیا ہے جس میں غالباً صوبوں کا حصہ کم کرنے کی تجویز ہے۔ جہاں تک اٹھارہویں ترمیم کا تعلق ہے اسے صوبہ سندھ بالخصوص صدر آصف علی زرداری اپنا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی اس ترمیم کے بارے میں بہت حساس ہے‘ مگر 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اٹھارہویں ترمیم میں بھی بعض تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔ شنید یہ ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے تعلیم اور آبادی کو ایک بار پھر‘ پہلے کی طرح وفاقی ذمہ داری بنایا جا رہا ہے۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہو گی کیونکہ 18ویں ترمیم کے موقع پر بھی بہت سے پارلیمنٹیرینز کی رائے تھی کہ یکساں تعلیم کیلئے اسے صوبوں کے حوالے کرنا مناسب نہیں۔ اسی طرح آبادی کی منصوبہ بندی کا شعبہ بھی مرکز کے پاس رہے تو جامع منصوبہ بندی ہو سکتی ہے۔ بہرحال یہ تبدیلی ضروری ہے مگر حکومت کے نزدیک یہ ثانوی تبدیلیاں ہیں۔ اس وقت حکومتی حلقوں اور انکے اتحادیوں کے بیانات متضاد ہیں۔ ایک طرف حکومت کی طرف سے 27ویں ترمیم کا باقاعدہ ٹائم ٹیبل دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا ہے کہ ہمیں 27ویں ترمیم کی کوئی جلدی نہیں۔
بدھ کے روز کہا گیا 27ویں ترمیم کا مسودہ تیاری کے آخری مراحل میں ہے‘ جمعۃ المبارک کو نہ صرف اسے کابینہ سے منظور کروا لیا جائے گا بلکہ اسی دن سینیٹ میں پیش بھی کر دیا جائے گا۔ ”چٹ منگنی پٹ بیاہ‘‘ اور کسے کہتے ہیں؟ حکومت کی اس تیاری اور ٹائم ٹیبل کو علی الاعلان پیش کرنے سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے مرکزی اتحادی پیپلز پارٹی سے پہلے ہی 27ویں ترمیم کیلئے حمایت کی یقین دہانی حاصل کر رکھی ہے۔ میرے ایک دوست انجینئر خالد قاضی ان دنوں بوسٹن‘ امریکہ میں مقیم ہیں۔ قاضی صاحب کھرے پاکستانی ہیں۔ وہ سندھ سے ہیں اور برسوں سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں پختہ یقین ہے کہ پیپلز پارٹی کبھی پابہ زنجیر عدلیہ کی حمایت والی ترمیم قبول نہیں کرے گی۔ جمعۃ المبارک تک آنے والی خبروں کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے آئین کے آرٹیکل 243 میں مجوزہ تبدیلیوں کی حمایت کی ہے جبکہ این ایف سی ایوارڈ کی تقسیمِ نو کو یکسر مسترد کیا ہے۔ 18ویں ترمیم میں بھی کسی چھیڑ چھاڑ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جہاں تک عدلیہ کو پابہ زنجیر کرنے کا تعلق ہے تو پیپلز پارٹی کا کہنا ہے وہ کہ اس میں تعاون نہیں کرے گی‘ نیز پی پی چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے نئے طریق کار کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت کی حمایت کرتے ہیں‘ دہری شہریت‘ الیکشن کمیشن اور دیگر معاملات پر پارٹی میں اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ججز کا تبادلہ ایک کمیشن کے ذریعے ہونا چاہیے۔
(ن) لیگ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہیے کہ محض وقتی ضرورتوں اور مصلحتوں کیلئے اعلیٰ عدلیہ کو ربڑ سٹمپ بنانا دور اندیشی نہیں کیونکہ کل کو جب انہیں ضرورت پڑے گی تو پھر وہ آزاد عدلیہ کو ترسیں گی۔ پی ٹی آئی نے تو 27ویں آئینی ترمیم کو سرے سے ہی قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ یہی مؤقف تحفظِ آئین اتحاد کا ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی جمعۃ المبارک کے روز تک چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے‘ وہ کبھی آئینی و عدالتی معاملات میں کلیدی کردار ادا کیا کرتی تھی‘ اب وہ مدتوں سے ان معاملات سے ماورا ہو چکی ہے۔جمہوری دنیا میں ایسی آئینی ترامیم کہ جن سے دستور کی بنیادی روح کے مجروح ہونے کا خدشہ ہو‘ ان پر ہفتوں پبلک اور پارلیمنٹ میں بحث و تمحیص کی جاتی ہے۔ مگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو نہ جانے کیوں اتنی جلدی ہے کہ وہ چٹ منگنی پٹ بیاہ پر تلی نظر آتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی ساتھ نہیں دیتی تو حکومت کو دو تہائی اکثریت ملنا محال نظر آتا ہے‘ پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر تو یہ قطعی ناممکن ہے۔
Load/Hide Comments

