الحاج اسلم گھمن ایڈووکیٹ کا درد

بابر اعوان
آٹھ‘ دس دن پہلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے کورٹ روم سے بحث کر کے باہر نکلا اور بار ایسوسی ایشن کے آفس میں پہنچا۔ تھوڑی دیر بعد میرے عزیز دوست الحاج اسلم گھمن ایڈووکیٹ میرے پاس آن بیٹھے۔ میں نے پوچھا: حاجی صاحب گھر کی تعمیر کہاں تک پہنچی؟ ایک دل آویز مسکراہٹ چہرے پر سجائے جواب دیا: گھر بن بھی گیا‘ ہم شفٹ بھی ہو گئے ہیں مگر آپ آئے نہیں۔ میں نے ان سے جلد آنے کا وعدہ کر لیا۔ اجازت لی تو ہمیشہ کی طرح دروزاے کی طرف لپکے۔ میں نے بازو سے پکڑ کر اسلم گھمن کو روکا اور کہا کہ آپ تشریف رکھیں لیکن اصرار کر کے وہ ہمیشہ کی طرح پھر بھی نہ رکے۔
اسلم گھمن ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سے میرا تعلق تقریباً دو عشرے پہلے قائم ہوا‘ تب جب وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ بہت کم گو‘ مجسم شرافت اسلم گھمن سے قرب اس قدر بڑھتا رہا کہ وہ میرے ساتھ شہر سے باہر بھی آنا جانا شروع ہو گئے۔ برادرم خورشید ندیم کے علاقے میں کوٹ بابر اعوان جانا ہوا تو اسلم گھمن بھی ہمراہ تھے۔ اس لیے جب کچھ دن پہلے سپریم کورٹ میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے وہاں کے سِٹرس کی لذت کا تذکرہ کیا۔ میں نے ہنس کر کہا: حاجی صاحب سیزن پھر آ گیا ہے‘ چلنے کی تیاری پکڑیں۔ یوں ایک خوشگوار نوٹ پر ایک عزیز دوست سے یہ ملاقات ختم ہو گئی۔
گزرے سوموار اور منگل کے دن میں پہلے سے طے شدہ مقدمات لڑنے کیلئے عازمِ لاہور ہوا۔ واپسی کے سفر کے دوران اسلام آباد سے ڈاکٹر ہارون کی کال آئی۔ آواز کی تیزی سے کچھ پریشانی لگ رہی تھی لیکن میرے بولنے سے پہلے ہی کہنے لگے: انکل آپ اس وقت کہاں ہیں؟ انہیں بتایا کہ موٹر وے پر‘ لاہور سے واپس آرہا ہوں۔ ہارون اسلام آباد کے تین بڑے ہسپتالوں میں سے ایک کے سی ای او ہیں‘ انہوں نے مجھے وفاقی دارالحکومت کے جوڈیشل کمپلیکس میں خود کش دھماکے کی افسوس ناک خبر سنائی۔ ساتھ یہ بھی بتایا کہ یہ دھماکا انتہائی خوفناک تھا۔ اتنی دیر میں وکلا‘ مختلف خواتین و حضرات کے میسج اور کالیں آنا شروع ہو گئیں۔ چکوال عبور کرتے کرتے پتا چلا کہ ایک وکیل صاحب اس دہشت گردی میں جان سے گئے ہیں اور دوسرے وکیل صاحب شدید زخمی حالت میں ہیں۔ ان دو سمیت 13 شہری‘ جن میں بیشتر سائل‘ اہلکار اورراہ گیر شامل تھے‘ جاں بحق ہو گئے اور دو درجن سے زیادہ شدید زخمی ہیں۔
دو دن کی تھکاوٹ تھی‘ اس لیے میں گھر پہنچتے ہی آرام کے لیے چلا گیا۔ لاہور کا موسم ایک بڑے سائز کے دھواں دار تنور جیسا ہے‘ جہاں ہوا میں سموگ کا درجہ قیامت خیز ہو چلا ہے۔ حکمران اشرافیہ کو مگر ٹک ٹاک سے فرصت نہیں۔ میرے سمیت جو لوگ بے وجہ باہر نکلنے کے شوقین نہیں ہیں‘ وہ بھی لاہور سے واپسی پر گلے کے امراض‘ آنکھو ں کی جلن اور فلو کے تحفے لے کر واپس آرہے ہیں۔ لاہور کی بدبختی یہ ہوئی کہ اصل لاہور اقتدار کے ٹھیکیداروں کے ہتھے چڑھ گیا۔ شہری بابوؤں کے نرغے میں آنے کے بعد پُرفضا اور کھلے باغوں کا شہر لاہور اب کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا اب یہ کہنا تو بنتا ہے کہ یہ وہ لاہور نہیں جو کسی دور میں لہور‘ لہور تھا۔ اب یہ لاہور ہے مگر کوئی اور ہے۔
بدھ کی صبح یہ پریشان کن خبر ملی کہ گزشتہ روز جوڈیشل کمپلیکس پر خود کش حملے کے شہید نوجوان وکیل زبیر‘ میرے عزیز دوست اسلم گھمن ایڈووکیٹ کے بیٹے ہیں۔ اس سانحے کی خبر سن کر مجھے سنبھلنے میں بھی وقت لگا۔ بیٹے بیرسٹر عبداللہ کو ساتھ لیا اور الحاج اسلم گھمن ایڈووکیٹ کے گھر بنی گالا سٹریٹ نمبر وَن میں فاتحہ خوانی اور پُرسا پیش کرنے کے لیے پہنچے۔ مرحوم زبیر کے گھر سے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی تب باہر نکل رہے تھے جب میں داخل ہو رہا تھا۔ فاتحہ خوانی کے بعد اسلم گھمن صاحب نے مجھے بتایا کہ جوڈیشل کمپلیکس حملے والے دن میں روٹین کے مطابق سپریم کورٹ پہنچا۔ کام سے فراغت میں کچھ وقت لگ گیا۔ اسی دوران ٹی وی سکرین پر جوڈیشل کمپلیکس پہ دہشت گردی کی ہولناک واردات کی تفصیلات چلنا شروع ہو گئیں ۔ اس خبر پر مجھے تشویش لاحق ہوئی؛ چنانچہ میں نے فوراً زبیر کا موبائل نمبر ملایا‘ جو نہیں مل رہا تھا۔ میں نے دو‘ تین مرتبہ کال ملائی۔ زبیر کے ایک وکیل دوست نے کال کر کے مجھے اطلاع دی کہ زبیر جوڈیشل کمپلیکس دھماکے میں زخمی ہوئے ہیں‘ ہم انہیں لے کر پمز ہسپتال جا رہے ہیں چنانچہ میں بھی سپریم کورٹ سے فوراً پمز پہنچا مگر میرے جانے سے پہلے ہی زبیر اپنی جان‘ جانِ آفرین کے سپرد کر چکے تھے۔
ایک جانب اسلم گھمن صاحب شدید کرب کے عالم میں بھی حوصلے سے مجھے تفصیلات بتا رہے تھے‘ دوسری جانب میرے ذہن میں یہ بات چل رہی تھی کہ اس سے پہلے بھی دو دفعہ ایف ایٹ جوڈیشل کمپلیکس پر خودکش حملے‘ چڑھائی اور بے رحمانہ فائرنگ سے تین سینئر وکیل شہید ہوئے تھے۔ دونوں دفعہ درجنوں شہری بھی یہ جانے بغیر کہ انہیں کس نے مارا اور ان کا جرم کیا تھا‘ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ایف ایٹ جوڈیشل کمپلیکس کے دوسرے حملے میں ہمارے ایک سابق کولیگ‘ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی کی جونیئر خاتون وکیل بھی جان سے گئیں‘ جس نے کچھ ماہ پہلے ہی لندن سے لاء کیا تھا۔ ان کی حیاتِ مستعار وہ کلی ثابت ہوئی جو بِن کھلے مرجھا گئی۔
اسی عرصے میں سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس صاحب نے نجی گفتگو میں مجھ سے کہا کہ آپ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ رہے ہیں‘ سارا نظام اندرونی طور پر دیکھا بھی اور چلایا بھی‘ بتائیں کہ وکیلوں اور شہریوں کے خلاف ایسے واقعات کیسے روکے جا سکتے ہیں۔ جواب دیا: بڑے گھروں پر قلعوں جیسی دیواریں گرا دیں۔ بے معنی سکیورٹی ختم کریں۔ چیف جسٹس حیران ہوئے اور کہنے لگے: اس سے دہشت گردی کیسے رکے گی؟ میں نے کہا کہ جب تک دہشت گردی روکنے والے اداروں اور ایلیٹ مافیا کی پناہ گاہیں قلعہ بند رہیں گی‘ وہ صرف ریڈ زون کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ ایک بار انہیں احساس ہوا کہ یہ تپش ان تک بھی پہنچ سکتی ہے‘ پھر سب محفوظ ہو جائیں گے۔ آج بھی کھلی آنکھوں سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہر شہر میں نو گو ایریاز ہیں‘ جہاں دہشت گرد تو کیا شہری چڑیا تک پَر نہیں مار سکتی۔ کچھ علاقے امن کے جزیرے اور باقی جہنم زار۔ پوری قوم کا پیسہ لگا کر چند سو محصور ہوکر محفوظ ہو گئے۔ باقیوں کو وہ جنگ‘ جو ایلیٹ مافیا نے چھیڑی تھی‘ اس کے نتائج بھگتنے کیلئے چھوڑ دیا۔
پسِ نوشت: سپر یم کورٹ کے ججز منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ نے عہدوں سے استعفے دے دیے ہیں۔ جب یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ دو مزید استعفوں کی خبر ملی ہے‘ جن میں سے ایک خاتون جج ہیں۔ استعفیٰ دل گردہ مانگتا ہے۔ مجھے ایک لیکچر میں پوچھا گیا کہ آپ شہید کسے کہیں گے؟ سادہ جواب ہے کہ جس شخص کے پاس زندگی اور موت کے درمیان چوائس کرنے کا اختیار آ جائے اور وہ اصول کی خاطر زندگی پر موت کو ترجیح دے کر اسے گلے لگائے‘ وہ شہید ہے۔ بقول شاعر:
قلم کی راہ میں جو آئے دل کو مار کے آئے
شبِ درازِ غمِ بے کراں گزار کے آئے
گلے سے طوقِ زمان و مکاں اتار کے آئے
بڑے بڑوں کو ببانگِ دہل پکار کے آئے
آنریبل ججز ویلکم بیک!

اپنا تبصرہ بھیجیں