اے آرطارق
پاکستانی معاشرہ اپنی اساس میں ایک محنت کش، باہمت اور وفادار قوم کی تعبیر ہے۔ اِسی قوم کے افراد میں سے ایک درویش صفت انسان عبدالغفور چودھری اپنی زندگی کی داستان میں ثابت کرتے ہیں کہ اگر ارادہ سچا ہو، ایمان پختہ ہو اور دل میں خدمتِ وطن کی تڑپ موجود ہو تو سپاہی سے ڈپٹی کمشنر بننے کا سفر بھی ممکن ہے۔ اِن کی خودنوشت ”سپاہی سے ڈپٹی کمشنر تک“صرف ایک شخص کی زندگی کی رُوداد نہیں بلکہ عزم، حوصلے اور محنت کی وہ چلتی پھرتی تفسیر ہے جو ہر پاکستانی کے اندر موجود سپاہی کو جگانے کی طاقت رکھتی ہے۔عبدالغفور چودھری کا تعلق قصور کی اُس سرزمین سے ہے جسے اولیائے کرام کی وادی کہا جاتا ہے۔ مولانا محمد شفیع نے اپنی معروف تصنیف ”اولیائے قصور“ میں تین سو سے زائد بزرگوں کے حالاتِ حیات رقم کیے ہیں۔ یہی روحانی فضاء شاید عبدالغفور چودھری کی شخصیت میں بھی سرایت کر گئی۔ اِن میں وہی سکون، وہی عزم اور وہی مجاہدانہ روح دکھائی دیتی ہے جو ایک ولی وقت میں پائی جاتی ہے۔اِن کی زندگی کی کہانی محض ایک سپاہی کے افسر بننے کا قصہ نہیں بلکہ ایک ایسی جدوجہد کا استعارہ ہے جس میں انسان اپنے حالات کا غلام بننے سے انکار کر دیتا ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ جب وہ فوج میں بھرتی ہوئے تو دل میں صرف ایک جذبہ تھا،وطن کی خدمت کا اور یہی جذبہ اُن کے سفر کی سمت متعین کرتا گیا۔عبدالغفور چودھری کی کہانی میں وہ لمحے بھی آتے ہیں جب مشکلات پہاڑ بن کر سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں مگر وہ نہ جھکتے ہیں نہ تھکتے ہیں۔ وہ اِس قول کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں ”اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے“۔کچھ ناقدین نے سوال اٹھایا کہ ایک عام پاکستانی اتنی بلندیوں تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟ لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستانی ہونا خود ایک اعزاز ہے اور پھر سپاہی ہونا اِس سے بھی بڑا فخر۔ ڈپٹی کمشنر بن جانا دراصل اِسی سپاہیانہ نظم و ضبط، محنت اور ایمانداری کا فطری ارتقا ہے۔ ہر ذمہ دار شہری دراصل ایک سپاہی ہی تو ہے جو اپنے فرض کی سرحد پر چوکس کھڑا ہے۔عبدالغفور چودھری کے نزدیک جنگ صرف توپ اور تلوار کی نہیں، جہالت، ناانصافی اور کرپشن کے خلاف بھی ایک مسلسل جہاد ہے۔ اِن کی خودنوشت میں ایسے کئی محاذ دکھائی دیتے ہیں جہاں وہ میدانِ عمل میں سینہ سپر کھڑے ہیں کبھی بطور فوجی سپاہی اور کبھی بطور سول افسر۔ مثال کے طور پر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں انہوں نے ڈومیسائل برانچ کے رشوت زدہ نظام کو ہفتوں کے اندر بدل کر رکھ دیا”ون ونڈو آپریشن“ کے ذریعے دیانت داری اور خدمت کا نیا معیار قائم کیا۔”سپاہی سے ڈپٹی کمشنر تک“دراصل ایک مجاہدِ حیات کی داستان ہے وہ سپاہی جو میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ میدانِ خدمت میں لڑا۔ اِس نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان ”کام، کام اور صرف کام“پر لفظ بہ لفظ عمل کیا۔ وہ اگر ایک طرف ضلعی انتظامیہ کی پیچیدہ ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے تو دوسری جانب علم و ادب کے چراغ روشن کرنے میں بھی مصروف رہے۔ اِن کی زندگی میں علم ایک مسلسل سفر کی مانند ہے۔ اِنہوں نے اسلامیات، سیاسیات اور انگریزی ادب میں ماسٹر کیا، ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی اور پھر عملی زندگی میں بھی علم و اخلاق کو یکجا کر کے دکھایا۔اِن کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ اِنہوں نے کبھی رکنا نہیں جانا۔ اِنہوں نے پڑھا بھی، پڑھایا بھی، لکھا بھی اور لکھنے والوں کو سراہا بھی۔ اِن کا ماننا ہے کہ زندگی کو سمجھنے کے لیے صرف جینا کافی نہیں، اسے برتنا بھی ضروری ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ ”میں نے زندگی کو دیکھا بھی ہے اور اِس کے ساتھ چل کر بھی دیکھا ہے“۔اِن کی خودنوشت محض یادوں کا مجموعہ نہیں بلکہ اعداد و شمار کے لحاظ سے ایک تاریخی دستاویز ہے۔ اِس میں 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے پاکستانی فوجیوں، قیدیوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے بارے میں مستند معلومات درج ہیں۔ یہ کتاب ایک سپاہی کی نظر سے لکھی گئی تاریخ ہے وہ تاریخ جسے اکثر مورخ بھول جاتے ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ عبدالغفور چودھری نے اپنے ہم جماعت اور ممتاز ایٹمی سائنسدان محمد رمضان کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ادارے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے حوالے سے بھی تفصیل سے لکھا ہے اگرچہ بعض مقامات پر وہ دونوں اداروں کو یکجا بیان کرتے ہیں مگر اِن کا مقصد کسی تکنیکی درستی کا نہیں بلکہ اُس تعلق کی فخر انگیز داستان سنانا ہے جو پاکستان کے ایٹمی عروج سے جڑی ہے۔یہ کتاب پڑھنے والا قاری محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ خود عبدالغفور چودھری کے ساتھ چل رہا ہو۔ اِنہوں نے اپنے ہر لمحے کو اِس دیانتداری سے قلم بند کیا ہے کہ گویا قاری اُن کے ساتھ سفر کر رہا ہو۔ چاہے وہ فوجی بھرتی کے دن ہوں یا تین دن کی چھٹی پر وطن واپسی کے مناظر۔وہ لکھتے ہیں کہ جب گھر پہنچے تو سب سوئے ہوئے تھے مگر انہیں کوئی شکایت نہ تھی کیونکہ دیہات کی زندگی کا یہی حسن ہے۔ عشاء کے بعد سکونِ نیند اور صبح صادق میں بیداری۔ وہ اِس فطری طرزِ حیات کو ”عین فطرت”قرار دیتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ عبدالغفور چودھری واحد سپاہی نہیں جو ڈپٹی کمشنر بنے۔ پاکستان کی عسکری روایت میں جنرل موسیٰ خان کا نام بھی احترام سے لیا جاتا ہے وہ بھی ایک عام سپاہی کے طور پر فوج میں شامل ہوئے اور آخرکار فور اسٹار جنرل اور گورنر بنے۔ اِس روایت کو عبدالغفور چودھری نے اپنے عمل سے زندہ کیا۔جنرل موسیٰ کی یادوں سے جڑی ایک دلچسپ جھلک مبصر جبار مرزا کی زبانی سامنے آتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 1991ء میں جب اُن کی ملاقات جنرل موسیٰ سے ہوئی تو اِنہوں نے پوچھا کہ آپ کے طویل سفر میں سب سے خوبصورت لمحہ کون سا تھا؟ جنرل موسیٰ نے مسکرا کرکہا ”مجھے 1926ء کا وہ دن نہیں بھولتا جب میں فوج میں سپاہی بھرتی ہوا تھا“یہ جملہ اِس پوری تحریر کا نچوڑ ہے۔سپاہی کو بچانا ہے اِس کے جذبے کو، اِس کے ایمان کو، اِس کے یقین کو۔ یہی سپاہی بعد میں ملک کے ادارے سنبھالتا ہے عدالتوں میں انصاف دیتا ہے کلاس روم میں استاد بنتا ہے یا دفتر میں ڈپٹی کمشنر۔عبدالغفور چودھری کی زندگی ایک پیغام ہے کہ سپاہی ہونا کوئی درجہ نہیں ایک روحانی مقام ہے جو اِس مقام پر فائز ہوتا ہے وہ اپنی زندگی کے ہر میدان میں محافظ بن کر اُبھرتا ہے۔اِن کی خودنوشت صرف ایک شخص کی کہانی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے آئینہ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کامیابی کسی خاص خاندان، طبقے یا پس منظر کی میراث نہیں،یہ اُن لوگوں کا انعام ہے جو ہمت نہیں ہارتے جو یقین رکھتے ہیں کہ کام کرو، محنت کرو اور خدا پر بھروسہ رکھو پھر دیکھو خدا کیا کرتا ہے۔

