کوئی بتلاؤکہ ہم بتلائیں کیا

خالد مسعود خان
سفر میں سب سے بڑا مسئلہ سامانِ سفر کا ہوتا ہے۔ ہوائی سفر میں تو یہ مسئلہ مزید گمبھیر ہوتا جا رہا ہے کہ سفر کا سامان ہماری خواہشات کی طرح بڑھتا جا رہا ہے جبکہ ہوائی کمپنیوں نے آہستہ آہستہ مفت سامان لے جانے کی حد کم کر دی ہے۔ ایک ہی کلاس میں ٹکٹوں کی قیمت کے مختلف درجے متعارف کروا دیے ہیں اور ٹکٹ کی قیمت کے کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں ساتھ لے جانے والے سامان کے وزن کی مقدار بھی اسی حساب سے کم زیادہ کردی ہے۔ یعنی کم پیسوں والی ٹکٹ لیں تو اپنے ساتھ لے جانے والے سامان کی حد اسی حساب سے کم ہو گی۔ ایک زمانہ تھا جب امریکہ اور کینیڈا کے ہر ہوائی مسافر کو اپنے ساتھ وزن اور سائز کی پابندی سے مبرا دو عدد بیگز لے جانے کی اجازت تھی۔ پھر یوں ہوا کہ ساتھ لے جانے والے بیگز کی تعداد تو دو ہی رہی لیکن ان بیگز کا وزن اکانومی کلاس والے مسافروں کیلئے 23 کلو گرام اور فرسٹ کلاس کیلئے یہ حد 32کلو گرام فی بیگ کر دی گئی۔ اب ہاتھ میں پکڑ کر جہاز کے اندر لے جانے والے بیگ کا وزن سات کلو گرام تک محدود کردیا گیا ہے۔ تاہم ان ساری سفری پابندیوں اور ایئر لائنز کی گھٹیا حرکتوں کا اس مسافر پر کوئی خاص اثر نہیں کہ یہ مسافر اپنے قلیل سامانِ سفر کے ساتھ گھومتا ہے کہ دوستوں کو کبھی تو اس کی بے سرو سامانی پر ترس آتا ہے اور کبھی رشک آتا ہے۔ ایک مہینے کا سفر بھی در پیش ہو تو اس مسافر کا سارا سامان سات کلو گرام والے دستی بیگ پر مشتمل ہوتا ہے۔ باقی دو بیگ بچوں اور دوستوں کے فرمائشی سامان کو ڈھونے کے کام آتے ہیں۔
گزشتہ سال بڑی بیٹی امریکہ سے پاکستان آئی تو حسبِ معمول سیفان نے لائبریری میں پڑی کتابوں کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ مجھے اس کی کتابوں سے دلچسپی کا اندازہ ہے لہٰذا میں نے اسے اپنے پاس پڑا ہوا سولہ جلدوں پر مشتمل ایک عدد ابتدائی درجے کا انسائیکلو پیڈیا دینے کا وعدہ کیا۔ اس نے اگلے ہی روز یہ انسائیکلو پیڈیا الماری سے نکالا اور اسے ایک کارٹن میں پیک کر لیا۔ جس روز جانے کی باری آئی تو سامان کا وزن زیادہ ہو گیا۔ اب سامان کی چھانٹی ہوئی تو اس کی زد میں یہ انسائیکلو پیڈیا بھی آ گیا۔ سیفان نے کافی چیخ جھاڑا ڈالا مگر اس کی کسی نے نہ سنی۔ تاہم میں نے اس سے وعدہ کیا کہ اگلی بار امریکہ آتے ہوئے یہ ڈبہ ساتھ لے آؤں گا۔ اس بار یہ ڈبہ ترجیحی بنیاد پر سامان میں شامل کیا اور یہ پیریز برگ پہنچ گیا۔ صبح جب سامان کھولا تو اپنا کتابوں والا ڈبہ دیکھ کر سیفان مسرت سے دیوانہ ہو گیا۔ اس کی خوشی دیکھ کر احمد مشتاق کا شعر یاد آیا:
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
سیفان کا کتابیں دیکھ کر خوش ہونے کا منظرمجھے گزشتہ دنوں ہونے والے ملتان بین الاقوامی کتاب میلے میں لے گیا۔ ایک بڑی ہاؤسنگ سکیم کے وسیع و عریض ایونٹ ہال میں اسّی کے لگ بھگ بک سٹالز نے اپنا رنگ جمانے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ اس انٹرنیشنل بک فیئر میں نہ صرف یہ کہ ایک بھی غیر ملکی بک سٹال نہیں تھا بلکہ پاکستان کے چار پانچ بڑے بڑے پبلشرز بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ منتظمین کی اَنتھک کوششوں اور محنت کے باوجود وہ بات نہ بن سکی جو لاہوریا کراچی کے کتاب میلوں میں دکھائی دیتی ہے۔انٹرنیشنل بک فیئر سے شارجہ کا عالمی کتب میلہ یاد آ گیا جو آج کل پورے جوش و خروش سے جاری ہے اور دنیا کے دوسرے بڑے کتاب میلے کے درجے پر فائز ہو چکا ہے۔ یادش بخیر! چند سال قبل تک نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد والے ہر سال کتاب میلہ سجایا کرتے تھے‘ اب وہ بھی خواب و خیال ہو گیا۔ ہمارے ہاں کتاب ہر گزرتے دن اپنی اہمیت کھو رہی ہے لیکن یہ عالمی سطح پر نہیں بلکہ صرف پاکستان میں ہو رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ پاکستان میں کتاب کلچر کی ترویج ادارہ جاتی کے بجائے محض شخصی بن کر رہ گئی ہے۔ چند لوگ ہیں جو انفرادی طور پر کتاب کلچر کے تحفظ اور فروغ کیلئے کام کر رہے ہیں۔ باقی ہر طرف سناٹا سا ہے اور یہ سناٹا روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ دو چار ہفتے قبل پنجاب لائبریریز فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے ملتان کی دو عدد پبلک لائبریریوں کی حالت بہتر کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ ان کی کتاب سے دلچسپی اور لائبریریوں سے محبت دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے سرکاری کام کو پنجابی کے لفظ کے مطابق ”چٹی‘‘ سمجھ کر نہیں بھگتاتے بلکہ اسے دلی محبت‘ ذاتی دلچسپی سے سرانجام دیتے ہیں۔
ڈی جی ڈائریکٹوریٹ آف لائبریریز پنجاب کا دفتر قائداعظم لائبریری میں ہے۔ یہ شاندار اور عظیم الشان لائبریری لاہور میں لارنس گارڈن میں جمخانہ کلب کی ایک سو ساٹھ سالہ قدیم عمارت میں قائم ہے۔ کسی زمانے میں لاہور میں مقیم گوروں اور شہر کی اشرافیہ کی اجتماع گاہ جمخانہ کلب کو 1972ء میں اس کی نئی عمارت میں منتقل کردیا گیا اور اس عمارت کو تزئین و آرائش اور بحالی کے بعد 1986ء میں لائبریری میں تبدیل کردیا گیا۔ اللہ بخشے ابا جی مرحوم کو‘ میں پہلی بار انہی کے ساتھ اس لائبریری میں آیا تھا۔ وہ جب بھی لاہور آتے سب سے پہلے عجائب گھر کی بغلی سڑک پر واقع وزیر خان کی بارہ دری میں قائم پنجاب پبلک لائبریری جاتے جس کے وہ لائف ممبر تھے۔ اس کے علاوہ ان کی دلچسپی کا محور قائداعظم لائبریری تھی۔پنجاب لائبریریز فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر جنرل اسی لائبریری میں کتابوں کے درمیان رہتے ہیں اور لائبریریوں اور کتابوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ سرکاری افسر عموماً اس قسم کی پوسٹنگ کو مجبوراً بھگتاتے ہیں اور ہمہ وقت کسی بہتر کرسی کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ ایسی جگہوں پر تعیناتی عام طور پر کھڈے لائن کے زمرے میں آتی ہے اور جب بندہ خود کو کھڈے لائن محسوس کرے تو وہ صرف دن پورے کرتا ہے‘ کام نہیں کرتا‘ مگرپنجاب لائبریریز فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر جنرل اس جگہ خوش بھی ہیں اور کام بھی کرتے ہیں کہ وہ ایک کتاب دوست شخص ہیں اور اس پوسٹ پر تعینات ہونے سے پہلے بھی کتب خانوں اور کتابوں کی دکانوں پر اکثر پائے جاتے تھے۔وہ اب تک پانچ نئی لائبریریوں کے قیام کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چغتائی لائبریری فاؤنڈیشن اور جنوبی پنجاب میں پرائیویٹ سطح پر سب سے بڑی جھنڈیر لائبریری کے ساتھ مل کر لائبریریوں کے میدانِ عمل کو وسیع کرنے اور لائبریری کو اس معاشرے میں نئے سرے سے متعارف کروانے کے منصوبے کیلئے کوشاں ہیں۔ جیلوں میں بیرک کی سطح پر لائبریریوں کا قیام ان کا خواب ہے جس پر وہ پہلا قدم اٹھا چکے ہیں۔ اگر ہمارے سرکاری افسر اپنے کروفر کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنے کام کو پچاس فیصد بھی ذاتی دلچسپی سے کرنے کا ارادہ کریں تو ہماری ساری خرابیاں دور ہو سکتی ہیں مگر یہ بھاری پتھر کون اٹھائے؟
نیشنل بک فاؤنڈیشن کے نئے ایم ڈی سے ملتان میں ملاقات ہوئی تو ان میں بھی کتاب کلچر کے فروغ کا وہی جذبہ دکھائی دیا جو چند سال قبل ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی آنکھوں میں چمکتا تھا۔ اپنے دور میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چھپنے والی کتابوں اور سالانہ بک فیئر کے حوالے سے جو نئے سنگ میل بطور معیار قائم کیے ہیں انہیں آگے بڑھانا تو شاید ممکن نہ ہو مگر اس معیار کو میچ کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ روز ملتان انٹرنیشنل بک فیئر کے بارے میں دوستوں سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس تین روزہ بک فیئر میں بمشکل آٹھ‘ دس لاکھ روپے کی کتب فروخت ہوئیں جبکہ کیچ (بلوچستان) کے تین روزہ کلچرل فیسٹیول میں 54 لاکھ کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ کہاں کیچ کی آبادی اور کہاں ملتان کی آبادی‘ مگر کتابوں والا معاملہ بالکل ہی الٹ ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے؟ جس کسی سے بھی پوچھا آگے وہی چچا غالب والا معاملہ آن پڑا کہ ” کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں